منصور الدین فریدی: نئی د ہلی
ہندوستان دارالامن اور دارالاسلام ہے نہ کہ دارالحرب ۔۔۔اب دنیا میں کوئی دارالحرب نہیں ۔دنیا میں اب جمہوریت ہے ،ڈیموکریسی ہے اور سیکولرازم ہے ،اس میں دارالحرب کا کوئی وجود نہیں ۔ہندوستان میں ۔۔مسلمانوں کے لیے مکمل آزادی ہے ،کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں،یہ ہماری تہذیب کی طاقت ہے جس نے ہمیں جوڑ کر رکھا ہے،ہمیں بات چیت اور مذاکرہ پر بھروسہ کرنا چاہیے
ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی کی ہندی کتاب' بھارت کی شرعی حیثیت' کی رسم۔ اجرا کے موقع پر ممتاز دانشوران نے ان خیالات کا اظہار کیا، جسے خسرو فاونڈیشن نے شا ئع کیا ہے، کتاب کا اجرا جامعہ ہمدرد کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ہسٹری میں پیر کو ہوا۔ تقریب میں ملک کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی کی کتاب کے ہندی ایڈیشن کا ترجمہ فاروق ارگلی نے کیا ہے۔ تقریب میں مہمان خصوصی پروفیسر (ڈاکٹر) محمد افشار عالم وائس چانسلر، جامعہ ہمدرد اور اعزازی مہمان ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد صدر،بین المذاہب ہم آہنگی فاؤنڈیشن آف انڈیا تھے_جس کی صدارت ارشد حسین سربراہ، شعبہ اسلامیات، جامعہ ہمدرد نے کی جبکہ ممتاز مقررین میں ڈاکٹر صفیہ عامر، اسسٹ پروفیسر، جامعہ ہمدرد شامل رہے
جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر محمد افشار عالم نے اپنے خطاب میں خسرو فاونڈیشن کی پہل کی سراہنا کی ،ساتھ ہی کہا کہ مولانا قاسمی نے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے ، یہ موضوع ہندوستان کے لیے بہت اہم ہے، ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں آپس میں مل جل کر ہی زندگی گزارنا ہے ۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے۔اس کتاب میں ہر پہلو قابل تعریف ہے ۔ یہ کتاب ہمیں بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع دیتی ہے ۔ ملک میں مسلمانوں کو کبھی کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے،اگرآپ میں اہلیت ہے اور قابلیت ہے تو آپ کو کوئی ترقی سے نہیں روک سکتا ہے ۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جامعہ ہمدرد کا اپولواسپتال سے معاہدہ ہوا ہے ، جس کے تحت ہم کینسر پر ایک ریسرچ کا حصہ ہیں ،اس کے ساتھ حکومت ہند نے 10 کروڑ روپیے منظور کئے ہیں ، سینٹر فار ایکسیلنس اس کا حقدار بنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا پروجیکٹ سب سے بہتر تھا ۔ حکومت بھی دیکھتی کہ کون اچھی تجویزلا رہا ہے، حکومت بھی کوئی فرق نہیں کرتی ہے۔حکومت یہ نہیں دیکھ رہی ہے یہ ادارہ اقلیتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ آج جامعہ ہمدرد ایک اچھے انسٹیٹیوشن بنا۔انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ ہمدرد نے صوفی تاریخ اور مدرسہ نظام پر کام شروع کیا ہے۔ صوفی تعلیمات پر کئی پروگرامز ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج دنیا ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے، ہمدرد یونیورسٹی کے کئی شعبے آج دیش اور دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کر چکے ہیں۔ انہوں نے کتاب کے کچھ حصوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب غلط فہمیوں کو دور کرے گی اوراس سے پہلے بھی خسرو فاؤنڈیشن نے جو کتابیں شائع کی ہیں وہ ہمارے اسکالرس کو پڑھنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج دنیا ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے،مستقبل میں ہندوستان دنیا کے تین سب سے مضبوط ممالک میں شامل ہوگا ۔
ڈاکٹرخواجہ افتخار احمد نے اپنی تقریر میں بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ دنیا میں اب کوئی بھی دارالحرب نہیں ہے، دنیا میں سیکولرزم ہے، جمہوریت ہے ،ڈیموکریسی ہے، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دارالحرب وہ ہوتا ہے، ، جہاں صرف دو راستے جہاد یا ہجرت ہوں ۔ ایسا اب دنیا میں کہیں نہیں ۔بات اگر ہندوستان کی کریں تو ہم بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ کا مرکز سعودی عرب میں نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان دارالسلام ہے،یہ دارالامن ہے، یہ دارالحرب نہیں، اس ملک میں جو آزادی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ ہم سب کو دو باتیں سمجھنا ہوں گی،خاص طورسے بچوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کریں ،ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں،ایک دوسرے کو پڑھنے کی پہل کریں،ہر مسئلہ کا حل بات چیت ہوتا ہے، یہ ملک ایک گلدستہ ہے، اس کی تہذیب دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ہمیں اس کو محفوظ رکھنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا آئین ہم سب کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے اور ہمیں کسی بھی طرح کے عدم تحفظ یا احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
پروگرام میں صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ارشد حسین، صدر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز نے کہا کہ 1947 کے بعد اب مزید اس بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے یا نہیں ـ بلکہ تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہندوستان دارالامن ہے۔
اس موقع پر اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر صفیہ عامر نے کہا کہ اس طرح کی کتابیں غلط فہمیوں کو دور کریں گی، ان کو زیادہ سے زیادہ مختلف زبانوں میں پھیلایا جانا چاہیے، ان پر ورکشاپ ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی ہماری نوجوان نسل کو گمراہ نہ کر سکے۔
مولانا ظفر ادارک قاسمی نے اپنی کتاب کے بارے میں کہا کہ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باپ کے اندر میں نے ہندوستان کے مذہبی سماجی اور سیاسی نظام پر گفتگو کی ہے،اس کے تحت روایات کو اور ان واقعات اور شخصیات کو پیش کیا ہے جن سے ہمارے ان کی عظمت اور ہمارے ہمارے ملک کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور اس بات کے تحت کن واقعات اور مثالوں کو بھی پیش کیا ہے کہ جن کے متعلق ان کو دھرم اور ہندو مذہبی شخصیات کے بارے میں مسلم علماء کا کیا کہنا ہے۔ہندوستان شرعی اعتبار سے نہ دارالحرب ہے، نہ دارالاسلام بلکہ دارالامن اور دارالجمہور ہے۔ جہاں تمام دیش واسیوں کو مساوی حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے مذہبی لٹریچر کو بھی پڑھنے کی ضرورت ہے۔
خسرو فاونڈیشن کے کنوینر نے ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے اپنے استقبالیہ خطبہ میں کہا کہ خسرو فاونڈیشن اور جامعہ ہمدرد یونیورسٹی کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے، ہم ہندوستانیت اورانسانیت کو آگے بڑھانے کے لیے کام کررہے ہیں جامعہ ہمدرد ہمیشہ ایک غیر متنازعہ سوچ کے ساتھ ترقی کر رہا ہے - یہی سوچ خسرو فاونڈیشن کی ہے- یعنی کے ان دونوں اداروں میں یکسانیت ہے -کیونکہ خسرو فاؤنڈیشن جس دن سے قائم ہوا ہے اس کے قیام کا مقصد ہندوستانیت اور انسانیت کو فروغ دینا ہے-ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں، ان غلط فہمیوں کو دور کیا جانے، خاص بات یہ ہے کہ اس وقت جو ریڈیکل لٹریچر ہے جو ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کبھی پڑوسی ملکوں سے مختلف تنظیموں کے دوران اس لٹریچر کو ایکسپوز کرنا اور اس کا لٹریچر تیار کرنا جو ہمارے دیش کو بھی آگے لے جائے-ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ہندوستانیت کے ساتھ انسانیت کو بھی آگے لے جائیں ، کیونکہ یہی سوچ ہے جو ہمیں آگے لے جائے گی -
انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں اہم موضوعات پر کتابیں شایع کی ہیں اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے، اس لیے ہم تمام اسکالرز سے جو ہمارے بیچ موجود ہیں ان سے یہ درخواست ہے آپ ایک بار ہماری ویب سائٹ وزٹ کریں اور ہمارے جو مقاصد ہیں ان مقاصد سے یکسانیت اگر کوئی کو متاثر کرتی ہے، آپ ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو اپ ضرور خسرو فاؤنڈیشن کا رخ کرسکتے ہیں،ہم آپ کا خیر مقدم کریں گے اور نہ صرف یہ کہ ہم آپ کی کتاب چھاپ کے پورے ملک کے مدارس، لائبریریزاوریونیورسٹیزکو بھیجتے ہیں ساتھ ہی ہم اپنے رائٹرزیا مصنف کو ان کی خدمت کے لیے نذرانہ پیش کرتے ہیں کرتےہیں۔
پروگرام کی ابتداء محمد حسین کی تلاوت اور ریحان عامر کی نعت سے ہوئی۔ خطبہ استقبالیہ خسرو فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر سراج الدین قریشی نے پیش کیا جب کہ نظامت کے فرائض خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے ادا کیے۔ جن خاص لوگوںنے پروگرام میں شرکت کی ان میں رام ویر سنگھ، ڈائریکٹر خسرو فاؤنڈیشن، عاطر خان، ایڈیٹر ان چیف، آواز دی وائس، پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، حکیم ضیاء الدین ندوی، الحکمہ فاؤنڈیشن، ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر محمد احمد نعیمی، ڈاکٹر آرزو ، ڈاکٹر صمیہ احمد ، ڈاکٹر ندرت معینی ، ہمدرد، مولانا مختار اشرف، ڈاکٹر شجاعت علی قادری، چیئرمین، ایم ایس او، مفتی منظر محسن و اساتذہ، طلبہ اور شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ریسرچ اسکالرس اور صحافی حضرات شامل تھے