آئے جھونکے سرد ہوا کے

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 05-01-2025
 آئے جھونکے سرد ہوا کے
آئے جھونکے سرد ہوا کے

 

 عمیر منظر

 ،شعبہ اردو ،مانو،لکھنؤ کیمپس 
 
ہندستان اپنی جس رنگا رنگی کے لیے جانا جاتا ہے اس میں ایک موسم بھی شامل ہے۔بچپن میں ایک نظم شامل نصاب تھی جس کے اولین مصرعے تھے  ؎
چارموسم خدا نے بنائے 
اپنی قدرت کے جلوئے دکھائے 
موسم کی تبدیلی دراصل قدرت کے جلوئے کا اظہار ہے۔ہندستان کے مختلف علاقے موسم کی اسی رنگا رنگی کی وجہ سے اپنی الگ الگ شناخت رکھتے ہیں اور پھر سب مل کر ایک ملک کی تعمیر کرتے ہیں۔موسم کے عجب عجب نظارے ان دنوں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان دنوں شمالی ہند سرد ہواؤں کی لپیٹ میں ہے۔بارش کے موسم کا اختتام موسم سرما کی نوید لاتا ہے۔اس دوران ایک دو مہینہ کا عرصہ اپنی تما م تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر رہتا ہے۔اوراس کے بعد رفتہ رفتہ سردی میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ کڑاکے کی سردی شروع ہوجاتی ہے اورپھر زندگی جیسے رک سی جاتی ہے۔ اس سرد موسم میں یوں تو موسم کی گل کاریوں کے ساتھ ساتھ یادوں کا ایک ہجوم بھی آتا ہے۔اور بہت کچھ یاد آتارہتا ہے اس کااظہار شعرا نے مختلف پیراے میں کیا ہے۔جاں نثار اختر کی ایک مشہور نظم خاموش آواز کے نام سے ہے۔کہا جاتا ہے ہے کہ یہ نظم جنوری کی سرد رات میں صفیہ کے مزار پرکہی گئی۔یادوں کا ایک ہجوم ہے جو امڈاآتا ہے۔خود کلامی کی کیفیت بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔یہاں تک کہ یہ بند سامنے آتا ہے۔
تم بن سارے موسم بیتے 
آئے جھونکے سرد ہوا کے
 نرم گلابی جاڑے گزرے 
میرے دل میں آگ لگا کے 
اس وقت شمالی ہند میں اس وقت چاروں طرف کڑاکے کی سردی کا دور دورہ ہے۔یہی موسم ہے جب کشمیر کے بعض علاقوں سے پانی کے برف بننے کی خبریں آتی ہیں۔ڈل جھیل کبھی کبھی برف میں تبدیل ہوجاتی ہے۔یہ خبر بہت اہتمام سے اخبارات میں شائع ہوتی ہے۔گرم رکھنے اور سردی سے بچنے کے یوں تو بہت سے راستے ہیں۔الگ الگ علاقوں میں اس کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں مگراس میں معروف طریقہ آتش دان اور آگ کے الاؤ کا ہے۔اس کی مختلف کیفیات ہیں۔اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
ذوالفقار عادل
وہ آگ بجھی تو ہمیں موسم نے جھنجھوڑا
ورنہ یہی لگتا تھا کہ سردی نہیں آئی
خرم آفاق
سردی اور آگ کا تعلق چولی دامن کا ہے۔اردو شاعری میں اسے مختلف انداز سے شعرا نے باندھا ہے۔اورسردی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ بہت سے شعرا نے محض اس احساس کی ترجمانی کی ہے جو سردی سے وابستہ ہے۔
سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے
پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے
قمر عباس قمر
اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر
اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے
سالم سلیم
اب کی سردی میں کہاں ہے وہ الاؤ سینہ
اب کی سردی میں مجھے خود کو جلانا ہوگا
نعیم سرمد
ان اشعار میں آگ یا الاؤ کے روشن کرنے کی وہ کیفیت نہیں ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے بلکہ یہاں خارجی سے زیادہ داخلی آگ اور الاؤکو روشن کیا جارہا ہے۔ الاؤ کی کیفیت بدلی ہوئی ہے۔ سردی کے مقابلے میں آگ اور الاؤکے الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں مگر الفاظ کے درو بست اور اس کے استعمال نے آگ کی داخلی کیفیت کو زیادہ روشن کیا ہے۔عام طور پر یہی تصور ہے کہ دسمبر سرد ہوتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ مہینے جاتے جاتے اپنے سرد ہونے کا احساس کراجاتا ہے۔اس احساس کو شعرا نے مختلف انداز میں شعری پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔چونکہ یہ سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے اس حوالہ سے بھی شعرا نے مختلف مضامین کو باندھا ہے۔
دسمبر کی سردی ہے اس کے ہی جیسی
ذرا سا جو چھو لے بدن کانپتا ہے
امت شرما میت
یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں 
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں 
نامعلوم
یہ سال بھی اداسیاں دے کر چلا گیا 
تم سے ملے بغیر دسمبرچلا گیا
نامعلوم 
ریحانہ روحی نے دسمبر کو اپنے خیال کے کینوس پر اس طرح سے پھیرا ہے 
یہ دسمبر اسی وحشت میں گذارا کہ کہیں 
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں 
ریحانہ روحی 
جدید غزل کے ایک معتبر شاعر سلطان اختر نے اس مضمون کو کچھ اس طرح باندھا ہے   ؎
سامنے آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا 
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا 
محمدعلوی کہتے ہیں 
علویؔ یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا
سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں 
محمد علوی
موسم کے سرد ہونے کا اندازہ کیجیے کہ دسمبر میں دھوپ جم جائے گی۔ اس ماہ کی دھوپ کچھ اس طرح کھلی ہوئی ہوتی ہے کہ شہر کے مکان دھلے ہوئے لگتے ہیں۔ اس نوع کے بے شمار اشعار کہے گئے ہیں جس میں سردی کو مرکز میں رکھ کر دوسرے علائم کے سہارے سے شعر ی پیکر عطا کیا گیا ہے۔ 
سورج لحاف اوڑھ کے سویا تمام رات
سردی سے اک پرندہ دریچے میں مر گیا
اطہر ناسک
سردی ہے کہ اس جسم سے پھر بھی نہیں جاتی
سورج ہے کہ مدت سے مرے سر پر کھڑا ہے
فخر زمان
 سرد رات کے حوالے سے بہت سے شعر کہے گئے ہیں البتہ امید فاضلی کا ایک شعر جس میں بنیادی طورپر تنہائی کے مضمون کو باندھا گیا ہے لیکن انھوں نے کمال فن کاری سے تنہائی کے ساتھ سرد رات  نیند اور آوارگی کو جس شدت سے شعر میں نبھایا ہے،اسے غیر معمولی فن کاری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے او ر اسی لیے شعربجا طو ر پر مشہور ہے  ؎
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
امید فاضلی
ذیل میں پروین شاکر کا شعر دیا جارہا ہے یہ بھی بہت مشہور ہے بلکہ اسے زبان زد خاص و عام والے اشعار میں رکھا جاسکتا ہے۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
پروین شاکر
یہ اردو کے شعرا کی خوبی ہے کہ وہ مختلف مضامین کو نہایت خوبی سے نبھاتے ہیں اور اپنی فکر کو الفاظ کا مناسب جامہ اس طرح عطا کرتے ہیں کہ ان کی فن کاری پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے۔شعر میں لطف اور کیفیت سونے پر سہاگہ کاکام کرتی ہے اور یہی چیز عام لوگوں کے لیے قابل توجہ بن جاتی ہے۔
سہیل آزاد کے شعر پر کالم کا اختتام ہوتا ہے۔
صندوق کھول کر کوئی جاڑوں کی دھوپ میں 
گزرے ہوئے دنوں کو سُکھاتا ہے شام تک