سراج نقوی
ہماری جمہوری سیاست کو آج جن چیلنجوں اور مسائل کا سامناہے ان سب کے اثرات صحافت کے شعبے پر بھی صاف طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ایسے میں اگرکسی خوددار اور بردبار صحافی کو ملازمت سے متعلق اپنی مجبوریوں کے سبب ‘سرکاری صحافت’ کی ذمہ داریاں نبھانی پڑیں،اور اس میں بھی اداریہ نگاری جیساضمیر کے لیے خطرے پیدا کرنے والا کام اس کے فرائض منصبی کا حصہ بن جائے تو ضمیر کی آواز کو زندہ رکھنا زیادہ بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔اردو کی ادبی صحافت کی نمائیندہ شخصیت حسن ضیاء قابلِ مبارکباد ہیں کہ انھوں نے سرکاری صحافی ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے ضمیر کی آواز کو زندہ رکھا بلکہ ‘سرکاری صحافت’ کو سروکار کی صحافت بنا کر بیحد مشکل صحافتی سفر کامیابی سے طے کیااور سر و دستار بچاتے ہوئے انفارمیشن آفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوکر اب وکالت کے پیشے میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں۔
حسن ضیاء امروہوی ہیں۔میرے ہم وطن ہیں ۔ایک اعلیٰ علمی و ادبی خانوادے سے ان کا تعلق ہے۔ امروہہ کی صحافتی کہکشاں میں ایسے کئی درخشاں ستارے ہیں کہ جن کی صحافتی عظمت کا اعتراف نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں کیا گیاہے۔ایسے شہر میں پیدا ہوکر صحافت اور ادب کے میدان کو کیرئیر کے طور پر منتخب کرنا اور اپنی انفرادیت کا لوہا منوانا کچھ آسان نہیں۔ حسن ضیاء نے یہ مشکل کام کیا۔انھوں نے تمام سرکاری اورنظریاتی حدود کے باوجود اپنی صحافت کو عوامی سروکاروں اور ادبی معیاروں کے ساتھ قائم رکھا۔اردو زبان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں بہت سے دقیق اور پیچیدہ تر مسائل کو بھی اشاروں و کنایوں میں بیان کرکے حق گوئی کا فرض ادا کیا جا سکتا ہے۔حسن ضیا نے ایسا کیا ہے۔اپنی تازہ تصنیف‘اردو صحافت اور ادب’ میں ان کی تحریروں کے موضوعات اور اشاروں و کنایوں میں ہی بہت کچھ کہتے ان کی تحریروں کے عنوانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دشوار گزار صحافتی راہوں سے بھی پاک دامنی کے ساتھ گزرےہیں۔زیر تبصرہ کتاب میں ان کا تحریرکردہ ‘ابتدائیہ ’ہی اس کا احسا س کرا دیتا ہے۔اس تحریر میں انھوں نے کئی ذیلی عنوانات قائم کرکے اپنی بات کہی ہے۔‘ابتدائیہ کا دوسرا ذیلی عنوان ‘سرکاری صحافت........‘‘یہ قلم کسی کا غلام ہے’’بہت پر معنی بھی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ حسن ضیاء اردوکی تمام تر تہذیبی روایات کے ساتھ اپنی بات کو صاف گوئی کے ساتھ کہنے کے مشکل فن سے واقف ہیں۔ان کی تمام تحریریں اس سطحی اورمنھ پھٹ اندازو پھوہڑ پن سے پاک ہیں جس کا شکار ہماری نئی نسل ہے۔
حسن ضیاء کی قلم پر مضبوط گرفت ہے،اسی لیے سرکاری صحافت کو بھی سروکار کی صحافت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ڈاکٹر بشیر بدر کے جس شعر کے دوسرے مصرعے کے آخری حصے کو انھوں نے مذکورہ بالا ذیلی عنوان کا حصہ بنایا ہے اس کاپس منظر جاننے والے عنوان کی معنویت تک پہنچ سکتے ہیں۔ دراصل ڈاکٹربشیر بدر نے یہ شعر اپنی میرٹھ کی رہائش کے دوران اس وقت کہا تھا کہ جب 1987کے فرقہ وارانہ فساد میں فسادیوں نے شاستری نگر میں ان کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا تھا اور انھیں میرٹھ چھوڑنا پڑا تھا۔یہ شعر شائستہ الفاظ میں اپنا درد یا پھر حقیقت حال بیان کرنے کے شاعر کے کمال فن کا ثبوت ہے ۔حسن ضیاء نے اس کا فائدہ اپنے مذکورہ ذیلی عنوان میں جس طرح اٹھایا ہے وہ نو واردان صحافت کے لیے ایک سبق ہے کہ کس طرح ایک ایماندار صحافی ہر طرح کے حالات میں بھی سچ کہتے ہوئے اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کر سکتا ہے۔
حسن ضیاء کے اداریوں اور شذرات پر مشتمل ‘اردو صحافت اور ادب’ کے پہلے باب کا عنوان ہے‘‘اردو صحافت’’۔اس باب کے ذیلی عنوانات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حسن ضیاء نے اپنی تحریروں کو اپنے سماج اور معاشرے کے سروکاروں سے وابستہ رکھا ہے۔انھوں نے صحافت کے لیے لا حاصل ‘بقراطی’موضوعات کا انتخاب نہیں کیا اور کہیں بھی اپنے قلم کو سرکاری صحافت کے طوق و سلاسل کا پابند نہیں بننے دیا۔اس باب میں ایک تحریر ‘‘اردو صحافت،اب ہوائیں ہی کرینگی روشنی کا فیصلہ۔’’کے عنوان سے شامل ہے۔یہ عنوان ہی دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تحریر ماہنامہ آجکل کے‘اردوصحافت نمبر :اگست 2014میں تحریر کیا گیا اداریہ ہے،لیکن اس میں انھوں نے اردو صحافت کے موجودہ چیلنجوں کا بہت اختصار سے ذکر کرکے اسے عوامی سروکار سے جوڑ دیا ہے۔یہاں بھی عنوان کی معنویت قابلِ داد ہے۔اس کے علاوہ ‘اردو صحافت کا مستقبل’،اخبارات و رسائل کی صورتحال،اردو صحافت اور سائینس،‘اردو صحافت کے دو سو سال’ او‘ر اردو ماس میڈیا’، ایسے موضوعات ہیں کہ جو اردو صحافت کے بنیادی مسائل سے بحث کرتے ہیں اور صحافت کے مستقبل کے تعلق سے سوچنے والے ہر قاری کے لیے قابلِ مطالعہ ہیں۔
کتاب کا دوسرا باب‘شخصیات’ پر مشتمل ہے۔اس باب میں جن شخصیات کو موضوع گفتگو بنایاگیا ہے ان میں اردو شعر و ادب سے لیکر اردو صحافت تک کی کئی بڑی شخصیات شامل ہیں۔کئی اہم دانشوروں، ماہرین تعلیم اور سماجی شخصیات پر بھی اس باب میں مضامین شامل ہیں۔جاوید حبیب ،ظفر علی خان اورکلدیپ نیّر جیسے اہم صحافیوں پر مضامین شامل ہیں۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی،آل احمد سرور،رشید احمد صدیقی،شمیم حنفی اور افتخار امام صدیقی جیسی اردو تنقید اور ادب کی بڑی شخصیات پر بھی جو مضامین تحریر کیے گئے ہیں وہ صحافتی اختصار کے باوجود حسن ضیاء کی ادبی اپروچ کا ثبوت ہیں۔مجتبیٰ حسین،خمار بارہ بنکوی،مجروح سلطانپوری،گلزار دہلوی اور پیر زادہ قاسم پر بھی اسی باب میں مضامین ہیں۔امروہہ سے تعلق رکھنے والا کوئی صحافی اور ادیب اپنے شہر کی قابلِ ذکر علمی و ادبی شخصیات کو بھول جائے یہ ممکن ہی نہیں۔حسن ضیاء نے اسی باب میں بجا طور پر امروہہ سے تعلق رکھنے والے اہم ادیب اور نقاد ڈاکٹر منظر عباس کو بھی بہت مختصر الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔
اس سے اگلا باب ‘‘سفر ہے شرط’’ کے عنوان سے ہے ۔صرف ۱۷ صفحات پر مشتمل اس باب میں حسن ضیاء نے اپنے غیر ملکی اسفار کی روداد رقم کی ہے،لیکن اس میں بھی بہت کچھ ایسا ہے جس سے حسن ضیاء کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔سفر سے متعلق تفصیلات بیان کرتے ہوئے حسن ضیاء نے متعلقہ ملک یا علاقے کے تہذیبی و ثقافتی پس منظر پر بھی مختصر لیکن دلچسپ تبصرے کیے ہیں۔
‘زبان و ادب’ کے عنوان سے کتاب میں شامل باب میں خشک ادبی موضوعات کے بجائے ان موضوعات کو جگہ دی گئی ہے کہ جنکو ادب کے عوامی سروکار کہا جا سکتا ہے۔مثلاً ‘کتاب بینی اور تلاش علم’ کے عنوان سے جو مختصر تحریر اس باب میں شامل ہے اس میں فروری2015میں نئی دلّی میں منعقد عالمی کتاب میلے کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے،لیکن اس بہانے اردو قارئین میں کتب بینی کے کم ہوتے شوق اور کتب بینی کی اہمیت پر بہت کم الفاظ میں پر مغز بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ پیش کیا گیا ہے کہ،‘‘کتابیں صدیوں کی معلومات اور تجربات کا خزانہ ہیں۔یہ ماضی اور حال کے درمیان رابطے کی کڑیاں ہیں۔ کتابیں پرھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جذبہ و احساس،فکر وخیال،تاثر و تجزیے،رد عمل اور اظہار خیال کی بے شمار شکلیں ہیں،اور ہر مصنف اور تخلیق کار اپنا الگ انداز رکھتا ہے۔کتابوں کے بغیر علوم و فنون کی تکیل وترسیل ناممکن ہے۔بے علم حکمرانوں کے دور میں کسی سرکاری رسالے میں سرکاری صحافت کرتے ہوئے کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنا حسن ضیاء کے صحافتی شعور اور علمی و ادبی سروکاروں سے ان کی گہری وابستگی کا ہی ثبوت ہے۔اب اسی باب کی دیگر تحریروں کے موضوعات پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالیں،اور دیکھیں کہ کس طرح ایک ذہین صحافی نے اپنے قلم کو ‘‘غلامی’’ سے بچاتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض کو ادا کیا ہے۔ڈیجیٹل انقلاب اورکتابیں’،‘مہاتما گاندھی اور ہندوستانی زبان ایک سے زائدزبانوں کا علم’،‘اردو کے بنیادی مسائل’،‘اردو اور قومی یکجہتی’،‘مستقبل کا معاشرہ اور ادب’ایسے موضوعات نہیں ہیں کہ جو صرف خواص کے ادبی ذوق کی ترجمانی کرتے ہوں بلکہ یہ تمام موضوعات ہمارے سماج کے عام تعلیمی اور معاشرتی مسائل و سروکاروں پر بھی ہمارے ذہن کو بیدار کرتے ہیں۔
اسی باب میں ایک پر مغز مضمون ‘استادِ میرـ:سعادت امروہوی’کے عنوان سے بھی شامل ہے۔حسن ضیاء نے یہ مضمون لکھ کر اپنے ہم وطن اور میر جیسے عظیم شاعر کو ریختہ میں شعرگوئی کی طرف راغب کرنے والے شاعر کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔‘غالبیات’کے عنوان سے شامل باب میں غالب کی شخصیت کے کئی اہم پہلوؤں کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ان مضامین سے حسن ضیاء کے ادبی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔
‘تحریک آزادی،آئین اور اور گاندھیائی ادب’اس اعتبار سے کتاب کا بہت اہم باب ہے کہ اس میں زیر بحث لائے گئے موضوعات موجودہ حکمرانوں کے ایجنڈے میں غیر اہم اور ناپسندیدہ ہوتے جا رہے ہیں،لیکن حسن ضیاء نے اپنے صحافتی شعور کو ایسے موضوعات اور سرکاری صحافت کے بوجھ تلے بھی کمزور نہیں ہونے دیا۔انھوں درباری میڈیا کے اشتعال انگیز موضوعات سے دامن بچاتے ہوئے اس آئین کے اہم پہلوؤں پر گفتگو کی ہے کہ جو حکمرانوں کی پیشانی پر بل ڈال دیتے ہیں۔یہ الگ بات کہ ایسے موضوعات کی کھلی مخالفت کا حوصلہ ان میں بہرحال نہیں ہے۔اس باب میں ‘جنگ آزادی’،تحریک آزادی،آئین،جمہوریت،یومِ آزادی،مہاتما گاندھی،مہاتما گاندھی کا تصور آزادی اور آزادی سے متعلق ادب پر شذرات شامل ہیں۔‘ہمارا آئین’کے عنوان سے جو مختصر مضمون اس باب میں ہے وہ ماہنامہ ‘آجکل’جنوری2021کا اداریہ ہے۔اس مختصر تحریر میں حسن ضیاء نے آئین کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے جس انداز سے حکمرانوں کی آمریت کو رد کیا ہے وہ ان کی فکری پختگی کاثبوت ہے۔لکھتے ہیں،‘‘اس بات کا انحصار با اختیار انسانوں پر ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی آزادی سلب کرنے کی کوشش نہ کریں۔’’‘متفرقات’ کے باب میں کورونا سے متعلق چند تحریرں شامل ہیں، لیکن سب سے اہم بات یہی ہے کہ حسن ضیاء نے اپنی بیشتر تحریروں میں اپنے اس جمہوری اور صحافتی شعور کو تماتر سرکاری حدود کے درمیان بھی زندہ رکھا ہے کہ جسے ہماری موجودہ صحافت کے بڑے حصّے نے گنواکر خود کو ‘‘گودی میڈیا’’ کی صف میں کھڑا کر لیا ،اور یہ کام صرف وہی قلمکار کر سکتا ہے کہ جس نے اپنے ضمیر کی آواز کو زندہ رکھتے ہوئے اور عوامی سروکاروں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض انجام دیے ہوں۔حسن ضیاء ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔