ہجڑوں کی خانقاہ: دنیا بھر کے مخنثوں کے لئے خاص کیوں ہے؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 19-09-2023
ہجڑوں کی خانقاہ: دنیا بھر کے مخنثوں کے لئے خاص کیوں ہے؟
ہجڑوں کی خانقاہ: دنیا بھر کے مخنثوں کے لئے خاص کیوں ہے؟

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

حال ہی میں او ٹی ٹی پر ریلیز ہونے والی سشمیتا سین کی فلم تالی خبروں میں ہے۔ اس میں سشمیتا سین ایک ٹرانس جینڈر کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایک دوسری فلم "ہڈی" بھی چرچا کا موضوع ہے جس میں نوازالدین صدیقی نے ایک مخنث کا کردار نبھایا ہے۔ "سڑک" سے "تالی" تک بہت سی فلمیں ٹرانسجینڈرس کی زندگیوں پر بنی ہیں مگر پھر بھی اس تعلق سے لوگوں کو تجسس رہا ہے۔ ٹرانسجنڈرس بھی عام لوگوں کی طرح انسان ہیں مگر جہاں قدرت نے انہیں دوسروں سے مختلف بنایا ہے وہیں مردوں اور عورتوں کے غلبہ والے سماج نے بھی ان کے ساتھ منصفانہ برتائو نہیں کیا اور انہیں مساوی درجہ نہیں دیا۔یہاں ہم آپ کو دہلی کی تاریخ کے ایک باب سے روبرو کرارہے ہیں جو ان سے وابستہ ہے۔

دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

دہلی، ہندوستان کی راجدھانی رہی ہے اور اس نے تاریخ کے بہت سے اتار اور چڑھائو کو دیکھا ہے۔ یہاں کی معروف تاریخی عمارتوں کے درمیان ایک غیر معروف تاریخی عمارت ہے ہجڑوں کی خانقاہ۔ یہ مہرولی علاقے میں واقع ہے۔ اس سے متصل ایک مسجد ہے جسے ہجڑوں کی مسجد کہتے ہیں اور ایک قبرستان بھی ہے۔ کبھی یہ جگہ وسیع وعریض ہوا کرتی تھی مگر اب اس کا بیشتر حصہ غیر قانونی قبضہ کا شکار ہوچکا ہے۔

اواز

تیسری صنف کی روحانی تربیت کا مرکز

خانقاہ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں اہل تصوف رہتے ہیں اور لوگوں کی روحانی تربیت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مخنث بھی انسان ہیں اور عام مردوں و عورتوں کی طرح انہیں بھی روحانیت میں دلچسپی ہونا ایک فطری بات ہے، جس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے یہ خانقاہ۔ بہرحال یہ ہجڑوں کی خانقاہ جس کا نام شاید ہی آپ نے پہلے کبھی سنا ہو، خاص اس لئے ہے کہ جس زمانے میں مردوں اور عورتوں کی روحانی تربیت کے لئے خانقاہیں ہوتی تھیں، خواجہ سراؤں اور مخنثوں کی روحانی تربیت کے لیے یہ خانقاہ بنائی گئی تھی۔ یہ جگہ قطب مینار سے ذرا فاصلے پر، اُسی بازار میں ہے جس میں اولیا مسجد ہے۔

خاص کیوں ہے یہ مقام؟

خانقاہ سے متصل قبرستان میں آپ کو کم از کم 50 قبریں دیکھنے کو ملیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پختہ قبریں لودھی عہد حکومت یعنی 15ویں صدی کی ہیں۔ یہاں ایک اونچی جگہ پر ایک اور قبر نظر آئے گی جسے حاجی صاحب کی قبر کہتے ہیں۔ تاہم پرانے زمانے میں ہی یہاں میتوں کو دفن کیا جاتا تھا اب کوئی دفن نہیں ہوتا۔ اس جگہ سے خواہ عام لوگ لاتعلق رہتے ہوں مگرمخنثوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ وہ اکثر یہاں گروپ میں یا اکیلے جمعرات کو آتے ہیں اورنماز، دعا وذکر واذکار کرتے ہیں۔ اس دن وہ غریبوں میں کھانا بھی تقسیم کرتے ہیں۔ چونکہ یہ جگہ ان کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے کچھ سالوں سے اس جگہ کی حفاظت بھی ان کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ یہاں ایک مسجد ہے جس کی دیکھ بھال بھی وہی کرتے ہیں۔یہاں ہندوستان کے الگ الگ صوبوں سے مخنثوں کی آمد ہوتی ہے۔محرم کے موقع پر یہاں حلیم بنایا اور تقسیم کیا جاتا ہے۔

awaz

خواجہ بختیار کاکی کی زمین

خانقاہ کے احاطے کے باہر ایک لوہے کا دروازہ ہے لیکن چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس دروازے کو کبھی تالا نہیں لگایا جاتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس جگہ پر مخنث پنا حاجی کا قبضہ ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنا حاجی یہاں پر بنی دکانوں سے کل 100 روپے کرایہ لیتے ہیں۔ مقامی مخنثوں میں یہ روایت مشہور چلی آتی ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے یہ جگہ خواجہ سراؤں یا مخنثوں کو دی تھی۔ اس کے بعد ستو مائی جو خواجہ سراؤں کی استاد تھیں، نے یہاں عمارت بنوائی۔ یہاں ایک چھوٹی سی جگہ ہے جسے حجرہ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ستو مائی یہاں بیٹھ کر 40 دن تک نماز اور عبادت میں مصروف رہی تھیں۔ وہ ایک خدا رسیدہ بزرگ تھیں لہذا اکثر یہاں ان کی یاد میں اگربتیاں اور چراغ جلتے رہتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں یہ ہجڑوں کی واحد خانقاہ ہے۔ یہ جگہ بہت پرسکون ہے۔ اگر آپ دہلی میں ہیں اور کسی پرامن جگہ پر جانا چاہتے ہیں تو آپ یہاں آسکتے ہیں۔

اواز

عہدوسطیٰ کا ایک ظالمانہ رواج

اخیر میں آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عہدوسطیٰ میں ایک غیرانسا نی رواج تھا کہ نوعمر لڑکوں کو خصی کرکے مخنث بنادیا جاتا تھا اوربڑے ہونے کے بعد ان سے محلوں کی حفاظت کا کام لیا جاتا تھا، انہیں زنان خانہ میں آنے جانے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ انہیں عنین یا خصی کرنے کا مقصد یہ ہواکرتا تھا کہ محلات کی خواتین کو کسی قسم کا جنسی گزند نہ پہنچے۔ ایسے لوگوں کو "خواجہ سرا"یعنی محلوں کا سردار کہاجاتا تھا۔ بعض خواجہ سرائوں کو رتبہ حاصل ہوا اور بادشاہوں کے قریب ہی نہیں پہنچے بلکہ ان کے سیاہ وسفید میں بھی شامل رہے۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے عنین کرنے کے ظالمانہ رواج پر پابندی عائد کردی تھی مگر تب تک کئی صدیاں گزر چکی تھیں اور بے شمار بے قصوروں کی زندگیاں برباد ہوچکی تھیں۔