غلاف کعبہ کی تاریخ - کب، کیسے اور کیوں شروع ہوئی تھی یہ روایت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-05-2024
غلاف کعبہ کی تاریخ - کب، کیسے اور کیوں  شروع ہوئی تھی یہ روایت
غلاف کعبہ کی تاریخ - کب، کیسے اور کیوں شروع ہوئی تھی یہ روایت

 

زیبا نسیم : ممبئی

 حج سیزن کا آغاز  خانہ کعبہ کے غلاف کو تین میٹر بلند کرنے کے ساتھ شروع ہوگیا ہے۔ یہ ایک احتیاطی روایت ہے جس کا مقصد خانہ کعبہ کے غلاف کو عازمین حج کی پہنچ سے دور رکھا جاسکے ۔جو عقیدت اور جذبات میں غلاف کعبہ کو پکڑ لیتے ہیں تو کبھی اس کو کپڑے کو تبرک کے طور پر لیجانا پسند کرتے ہیں ۔بہر حال  خانہ کعبہ کی دیواروں اور باب کعبہ (دروازہِ کعبہ) کو جس کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے اسے غلاف کعبہ یا کسوہ کہتے ہیں۔ جس کی ایک تاریخ ہے۔ جو مصر سے شروع ہوئی تھی ۔ سینکڑوں کلو گرام ریشم، چاندی اور سنہری دھاگوں سے تیار کیا جانے والا خانہ کعبہ کا غلاف کئی دہائیوں سے ہر سال ذوالحجہ کے اسلامی مہینے میں حج کے موقع پر نو ذوالحجہ کو تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ہر سال غلاف کعبہ کی تبدیلی کی تقریب نماز عشا کے بعد قریب پانچ گھنٹے تک جاری رہتی ہے اور اسے پوری دنیا میں لوگ براہ راست دیکھتےہیں۔

 اگر بات کریں  خانہ کعبہ کے غلاف کی  تو تاریخی کتابوں کے مطابق اسلام سے پہلے یمن کے بادشاہ طوبیٰ الحمیری وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے پہلی بار کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا ۔ وہ مکہ آئے اور احترام کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے جس کے بعد انہوں نے خانہ کعبہ کو غلاف سے ڈھکا ۔تاریخ داں کہتے ہیں کہ الحمیری نے کعبہ پر جو غلاف چڑھایا وہ موٹا کپڑا تھا، جس کو 'کشف' کہا جاتا تھا۔ بعد میں اس کی جگہ 'معافر' نے لے لی جو اصل میں یمن کے ایک قدیم شہر سے موسوم ہے، جہاں معافر تیار کیا جاتا تھا۔بعد ازاں شاہ یمن نے کعبہ پر 'ملعہ' کا غلاف چڑھایا جو نرم کپڑے کا ایک پارچہ ہوتا ہے جسے ربیطہ کہا جاتا تھا۔ اس بعد انہوں نے کعبہ پر سرخ دھاریوں والے یمنی کپڑے 'وساعیل' کا غلاف ڈالا۔

الحمیری کے بعد آنے والے یمنی حکمران غلاف کعبہ کے لیے چمڑا اور قبطی کپڑا استعمال کرتے تھے جبکہ اسلام سے پہلے کے دور میں بہت سے لوگ کعبے پر غلاف چڑھانا مذہبی فریضہ اور بڑے اعزاز کی بات سمجھتے تھے۔دور جاہلیت ہی میں سرنگ رنگ کا یمانی ڈیزائن کے مطابق غلاف تیار کیا گیا۔ دور جاہلیت کے دوسرے بادشاہوں  نے بھی غلاف کعبہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ ایک دور میں تو  چمڑے کا غلاف بھی تیار کیا۔ تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ غلاف کعبہ کی تیاری میں ہر آنے والا حکمراں پہلے سے بڑھ کر اس محنت کراتا۔ یوں اللہ کے گھر کے غلاف کے معاملے میں بادشاہوں میں بھی ایک مقابلے کی کیفیت تھی۔

خانہ کعبہ کا روح پرور منظر 


اسلامی تاریخ دانوں کے مطابق اسلام کے بعد پیغمبر اسلام وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے کعبہ پر قبطی غلاف چڑھایا جو مصر میں بننے والا سفید رنگ کا باریک کپڑا ہوتا تھا جو قبطی باشندوں کے نام سے منسوب تھا۔زمانہ قبل اسلام کی طرح غلاف کعبہ کی روایت عہد اسلامی میں بھی برقرار رہی۔ یہ معلوم نہیں کہ فتح مکہ سے قبل عہد نبوی میں غلاف کعبہ تیار کیا گیا یا نہیں البتہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے 'القباطی' نامی کپڑے سے غلاف کعبہ تیار کرایا تھا۔ یوں یہ اسلامی عہد میں پہلا غلاف کعبہ تھا۔ ایک تاریخی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے دور کا تیار کردہ غلاف کعبہ اس وقت تبدیل کیا جب ایک خاتون کے ہاتھوں غلاف کعبہ کا کچھ حصہ جل گیا تو آپ نے یمنی کپڑے سے نیا غلاف تیار کرایا تھا۔ بادشاہوں اور سلطانوں نے غلاف کعبہ اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

 سعودی دور میں کسوہ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی۔ اس وقت مصر میں قائم اسلامی حکومت صدیوں تک کسوہ بھجواتی رہی۔ماضی میں مصر سے تحفے کے طور پر ہر سال غلاف کعبہ بھجوایا جاتا تھا۔ اس دور میں جمال عبدالناصر حاکم تھے۔ لیکن سنہ انیس سو باسٹھ میں جب غلاف کعبہ بندر گاہ پر پہنچا تو کافی دیر ہو گئی تھی۔ اس موقع پر سعودی عرب میں سنہ 1962 میں شاہ سعود نے شاہ فیصل کو غلاف کے لیے کارخانہ لگانے کا حکم دیا جس کو مکمل کیا گیا۔ تب سے اسے مقامی طور پر تیار کیا جارہا ہے اور سلسلہ جاری ہے۔

خانہ کعبہ کے غلاف کی تبدیلی کا منظر


اس میں کوئی شک نہیں کہ  عصر حاضر میں جس حکمراں خاندان نے غلاف کعبہ کی تیاری اور جدت میں زیادہ توجہ سے کام کیا وہ عبدالعزیز آل سعود ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز نے کسوہ کی تیاری کے لیے مسجدالحرام کے قریبی علاقے اجیاد میں نجی عمارت قائم کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اسلام سے پہلے سے کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دور سے لے کر موجودہ دور تک حجاز میں پہلی مخصوص عمارت تھی جہاں کسوہ کا کپڑا بنا جاتا تھا۔اس دور میں مکہ میں کارخانہ لگایا گیا جہاں پہلی بار کسوہ تیار کیا گیا۔ اس کے بعد اس کی تیاری کا کام ام الجود کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔ نئی جگہ پر کپڑا تیار کرنے کی جدید ترین مشینیں لگائی گئی ہیں اور ایسا غلاف کعبہ تیار کیا جاتا ہے جو پہلے کبھی نہیں بن سکا تھا ۔ شاہ سلمان کے حکم پر کعبہ کسوہ فیکٹری کا نام تبدیل کرکے کعبہ کسوہ شاہ عبدالعزیز کمپلیکس رکھ دیا گیا۔

 آل سعود خاندان کے شاہ عبدالعزیز پہلے حکمراں تھے جنہوں نے سنہ 1946 میں غلاف کعبہ تبدیل کیا۔ انہی کے دور میں 1980 کو غلاف کعبہ کا اندرونی کپڑا تبدیل کیا گیا اور سنہ 1997 کو دوبارہ مکمل غلاف تبدیل کیا گیا۔

غلاف کعبہ کی تیاری میں 670 کلو گرام خالص ریشم استعمال کیا جاتا ہے۔

غلاف کعبہ کی موٹائی 98 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔

غلاف کعبہ کی اونچائی 14 میٹر ہے۔

رکنین کی جانب سے غلاف کی چوڑائی 10 اعشاریہ 78 میٹر ہوتی ہے۔

ملتزم کی جانب سے غلاف کی چوڑائی 12 اعشاریہ 25 میٹر، حجر اسود کی سمت سے 10 اعشاریہ 29 میٹر جبکہ باب ابراہیم کی جانب سے 12 اعشاریہ 74 میٹر ہوتی ہے۔

یکم ذی الحجہ کو غلاف کعبہ کی "سدنہ" یعنی متولی خاندان کو حوالے کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔

ہر سال 09 ذی الحجہ کو غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے۔

غلاف کی تیاری پر 20 ملین ریال کی لاگت آتی ہے۔

باب کعبہ کی جانب سے غلاف کے نیچے 6 اعشاریہ 32 میٹر اونچا اور تین اعشاریہ تیس میٹر چوڑا اضافہ کپڑا جوڑا جاتا ہے تاکہ غلاف کو چھونے سے بچایا جا سکے۔