قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان : صحافتی ورکشاپ کا آغاز کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر شمس اقبال

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 31-08-2024
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان  : صحافتی  ورکشاپ کا آغاز کیا جائے گا  ۔ ڈاکٹر شمس اقبال
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان : صحافتی ورکشاپ کا آغاز کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر شمس اقبال

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

 اردو صحافت میں نئے چہروں کی کمی کو دور اور معیار کو بلند کرنے کے لیے صحافیوں کے لیے ورکشاپ  کا سلسلہ شروع کیا جائے گا،اس کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے گا  تاکہ موجودہ دور میں جو نوجوان اردو صحافت سے وابستہ ہیں انہیں ان باریکیوں سے روشناس کرایا جاسکے جن کی کمی کو ہی اردو  صحافت کے معیاری نہ ہونے کا سبب مانا جارہا ہے ۔

   قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان  کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے  یہ وعدہ اردو اخبارات کے مد یران کے ساتھ ایک غیر رسمی بات چیت کے دوران کیا ۔ساتھ ہی اس بات پر اتقاق کیا کہ اردو صحافت میں نئی نسل کو تربیت کی ضرورت ہے، تاکہ صحافت کے معیار کو مزید بہتر بنایا جاسکے جس میں زبان سب سے اہم ہے ۔ اردو صحافت کو بھی اسی طرح توجہ کی ضرورت ہے جیسے کہ کتابوں  پردی جارہی ہے کیونکہ صحافت میں بھی ۔تمام کام لکھنے اور پڑھنے کے ہی ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اہل اردو اخبارات خرید کر پڑھیں کیونکہ  جب تک زبان زندہ رہے گی تب تک تہذیب بھی زندہ رہے گی   

 اردو زبان کی کتابوں کےمطالعہ میں کمی اور زبان میں اہل اردو کی عدم دلچسپی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جس دن معاشرے کو کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا اس دن آپ کو قاری تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ قاری خود کتاب کو تلاش کرے گا، ہر کسی کے ہاتھوں میں کتاب ہوگی، خواہ وہ کسی بھی موضوع کی ہو۔آپ یقین جانیں کتاب کے لیے قاری سری نگر جائے گا ، دریا  گنج جائے گا ، ساؤتھ ایکس جائے گا۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اخر ہم نے قاری کو دیا کیا ہے ہم نے کیا دینے کی کوشش کی ہے ہم صرف اس بحث میں الجھے رہے ہیں کہ اسکرپٹ مرے گی تو زبان مر جائے گی ۔دراصل جس سماج کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے اس کی ترقی اور سربلندی کو کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔

 انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا کہ زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اسے روزگار سے جوڑنا ضروری ہوتا ہے،اس سلسلے میں انہوں نے ملیالم اخبارات کی مثال دی اور کہا کہ اس وقت ہندوستان میں سب سے زیادہ ملیالم زبان  کے اخبارات پڑھے جاتے ہیں، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملیالم سب سے زیادہ روزگار سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ یہ زبان سے لگاؤ ہے، اپنی تہذیب سے لگاؤ ہے، جس نے ملیالم کو یہ اعزاز دیا ہے،اس کے برعکس ہم اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں مگر ہمارا معاشرہ اس کا ثبوت دینے سے قاصر ہے۔ڈاکٹر شمس اقبال نے مزید کہا کہ یہ میری تحریک ہے، ایک سوچ ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میں کتنا کامیاب ہو سکوں گا ۔مگر میرا یہ مشن رہے گا کہ ہر ہاتھ میں کتاب ہو۔اردو کو روزگار کے لیے نہیں، تہذیب کا حصہ ہونے کے سبب سیکھنا زیادہ اہم ہے، میں نہیں مانتا کہ روزگار سے جوڑنا ہی ایک راستہ ہے اس زبان کو بچانے کا ، ہم تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے ایک زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں

ڈاکٹر شمس اقبال کی  اردو صحافیوں سے  ملاقات 


ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ یقینا کتابوں کا پروموشن ہمارا مشن ہے مگر ہمارا ایک اور خواب بھی ہے جو لرننگ ایپ بنانے کا بھی ہے اس سلسلے میں ہماری دو یا تین میٹنگز ہو چکی ہیں- میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسا عیب بنے جب ہم اس سے جڑے ہیں تو ہمیں اس بات کی بھی خبر رہے کہ ہمارے علاوہ اور کتنے لوگ اس لرننگ ایپ کو استعمال کر رہے ہیں_ لیکن اس میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ جو ہے وہ نستعلیق فونٹ ہے جو کہیں نہ کہیں تکنیکی طور پر پریشانی پیدا کر رہا ہے ، اس لیے ہمیں یونی کوڈ پر جانا پڑے گا جسے عام طور پر لوگ پسند نہیں کرتے ہیں مگر یہی فونٹ انٹرنیٹ پہ ایپ میں استعمال ہونا اسان ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ کونسل کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد وہ مسلسل اہل اردو سے مختلف معاملات میں رابطہ بنائے ہوئے ہیں مگر کہیں مایوسی ہاتھ آتی ہے تو کہیں خوشی۔لیکن یہ میرے لیے ایک مشن ہے۔

انہوں نے کشمیر میں حالیہ کتاب میلہ کا ذکر کیا اور کہا کہ کشمیر میں اردو کے تئیں دلچسپی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ، جہاں نئی نسل میں زبان کے لیے محبت اور لگاو قابل دید تھا ۔ ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ وادی کا اردو زبان و ادب سے بہت گہرا رشتہ رہا ہے، اردو زبان کو فکری اور لسانی اعتبار سے ثروت مند بنانے میں یہاں کے لوگوں نےاہم کردار ادا کیا ہے۔اہلِ کشمیر کی اردو زبان اور کتابوں سے محبت قابل رشک ہے ۔