غزل کے دلربالہجے میں بولوں --شائستہ لہجے کا پروقار شاعر:اظہر عنایتی

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 15-10-2024
غزل کے دلربالہجے میں بولوں --شائستہ لہجے کا پروقار شاعر:اظہر عنایتی
غزل کے دلربالہجے میں بولوں --شائستہ لہجے کا پروقار شاعر:اظہر عنایتی

 

                                                                                                                                                                      ڈاکٹر عمیر منظر

                                                                                           شعبہ اردو

                                                          مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

                مشاعروں کی اگر کوئی تاریخ مرتب کی جائے اور اس میں ان شعرا کا انتخاب کیا جائے جن کی شاعری اسٹیج کے علاوہ صفحہ قرطاس پر بھی اپنی اہمیت کا احساس دلاتی رہی اور جسے اس کے معاصرین نے بھی سراہا ہو،تو ان میں اظہر عنایتی کا نام نمایاں طورپر شامل ہوگا۔ مشاعروں کی نصف صدی سے زائد کی سرگرمی شعرو ادب سے ان کے والہانہ تعلق اور لگاؤ کا اظہار ہے۔ مشاعروں میں ا ن کی موجودگی رام پور کی شعری روایت کے ایک ممتاز نمائندہ کے طور پر بھی تسلیم کی جاتی رہی ہے۔انھوں نے شاعری کو شہرت و مقبولیت کا زینہ نہیں بنایا بلکہ زبان کی خدمت اور ایک ادبی و شعری فریضے کی ادائیگی کے طورپر برتنے کا التزام کیا۔ان کے سامنے رام پور کے اساتدہ اور وہاں کی شعری روایت کا ایک زندہ کردار رہا ہے، جس میں فن اور فنکار دونوں کا احترام لازمی ہے۔اس تناطر میں اگر دیکھا جائے تو اظہر عنایتی نے فن اور فن کار کے تئیں پاس داری کا عہد  فرض شناس ادیب کے طورپر ادا کیا۔فن کے تئیں سنجیدگی اور کچھ کہنے کے لیے سلیقہ مندی کا طوران کے سیکھا جاسکتا ہے۔ان کی غزلوں میں ایک طرف حسن و عشق کی دنیا ہے تو دوسری طرف تاریخ و تہذیب کی روایت اورآگہی کا شعور ہے۔انھوں نے تاریخ کو بدلتے اور کرداروں کو ختم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔وجود کا بے وقعت ہونا کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں لیکن انفرادی زیاں سے کہیں زیادہ اجتماعی زیاں کی صورتیں نقصان دہ ہوتی ہیں۔ان واقعات اور حادثات کو کس طرح شعر کی صورت دی جائے کہ فن کا دامن بھی میلا نہ ہو اور سننے والے کے لیے محض واقعہ نہ بن کر رہ جائے۔بلکہ دونوں کے امتزاج سے شعر اپنی تمام تر جمالیات کے ساتھ روشن ہو۔اس نوع کی فن کاری اظہر عنایتی کے یہاں بالعموم ملتی ہے۔جن لوگوں نے انھیں سن رکھا ہے یا ان کے مجموعہ کلام کو پڑھا ہے انھیں اندازہ ہے کہ ان کے لہجے کا دھیما پن اور اسلوب کی شائستگی خاص اثر اور کیفیت رکھتی ہے۔فن کی سچی پاس داری کے سبب ہی انھوں نے کبھی حیلوں اور حوالوں پر یقین نہیں کیا اور اپنی تخلیقی دنیا خود تعمیر کی۔اس کا احساس ان سے زیادہ کسی کو نہیں ہوسکتا اور اسی وجہ سے انھوں نے خود کہا ہے۔

اپنی تصویر بناؤگے تو ہوگا احساس

کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا

یہ وہی شخص کہہ سکتاہے جو ان راہوں سے گذر ا ہوا ہو۔کم و بیش نصف صدی کے شعری میں سفر اطمینان سفر کی بہت سی صورتیں ہیں اور اب تو وہ غبار بھی نہیں رہا بلکہ جو کچھ ہے اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے صاف آنکھیں اور شعری حسن کا پارکھ ہونا ضروری ہے۔ان کے یہاں اس طرح کے بہت سے اشعار ہیں اور شاید اسی وجہ سے ان کے یہاں ایک قلندرانہ صفت بھی ہے۔

علاوہ راہ قلند تمام دنیا میں

کسی بھی راہ سے گزروزمانہ پڑتا ہے

راہ قلندر بہت پہلے انھیں ہاتھ لگی اور اس طرح کہ زمانہ کے سردو گرم حالات ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکے کیونکہ ان کا تخلیقی وجد ان ہمیشہ ان کے لیے نئی نئی راہیں سجھاتا رہا۔

اظہر عنایتی کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو جذبات و احساسات کی وہ دنیا ہے جو عشق ومحبت سے عبارت ہے۔محبت نہ کوئی وقتی شے ہے اور نہ ایسا جذبہ جو لمحاتی ہو۔بلکہ یہ ایک دوامی نقش ہے جس کے لیے صبر اورثبات دونوں ضروری ہیں۔ان کی شاعری میں حسن و عشق کے بہت سے پہلو اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کے بعض شعر تو زبان زد خاص و عام بھی ہیں اور شاید ہی کوئی مشاعرہ ہو جہاں ان اشعار کی فرمائش ان سے نہ کی جاتی رہی ہو۔اس طرح کے ایک دو شعر ملاحظہ فرمائیں۔

یہ بھی رہا ہے کوچہ جاناں میں اپنا رنگ

آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آگیا

بعد تیرے تری تصویر سے باتیں کرکے

میں بھی تھک جاتا ہوں تصویر بھی تھک جاتی ہے

چاند سے کہیے بام پر ہی رہے

ہم اسے دیکھنے کو آئے ہیں

ان اشعار میں محبو ب کی ایک چلتی پھرتی تصویر ہے،جس کے کئی رنگ ابھرتے ہیں اور پھرگہرے ہوتے جاتے ہیں۔کوچہ جاناں کا رنگ،تصویر سے باتیں کرنا،چاند سے بام پر رہنے کی تاکید کرنا دراصل اسے اہتمام عاشق سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔کہنے کا یہ انداز بھی خوب ہے۔اس اہتمام کی اگلی منزل بھی شعر ہی کی صورت میں ملاحظہ کریں۔

کچھ دیر تک تو اس سے مری گفتگو رہی

پھر یہ ہوا کہ وہ مرے لہجے میں آگیا

اندازہ کیا جاسکتاہے کہ غزل کا روایتی عاشق محبت کوعارضی لمحہ نہیں سمجھتابلکہ عشق کی ایک پوری کائنات ہے جس میں ہر ہر گام پر سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ایسی صورت میں ایک مدت اور وقت چاہیے عشق کرنے اور اس کی داستان رقم کرنے کے لیے۔یہ لمحہ جسے بھی مل جائے وہ عشق و محبت کا امام ہوجاتا ہے۔بقول میر

عشق خوباں کو میر میں اپنا

قبلہ و کعبہ و امام کیا

اظہر عنایتی کہتے ہیں  ؎

فرصت عشق ہی نہیں ور نہ

میں بھی اک داستان دے جاؤں

داستان تک پہنچنے کے لیے کیسے کیسے جاں گسل مراحل آتے ہیں اور کبھی کبھی بعض انجام دیکھ کر یہ بھی کہنا پڑتا ہے  ؎

اتنی آنکھیں یہاں اجڑی ہیں کہ ڈرتے ہیں بہت

اپنی آنکھوں میں کوئی خواب سجاتے ہوئے لوگ

اظہر عنایتی کی غزلوں میں حسن و عشق کی دنیا ایک طرح دار دنیا ہے غزل کے محبوب کی طرح۔لطف و انبساط کے پہلو ہیں اور پہلو میں دلداری و دلربائی بھی ہے۔لیکن ان کی کائنات کل یہی نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں سیاست دوراں کا زخم بھی ہے۔

زندگی کی ناہمواریوں کے بہت سے پہلو ایوان سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔سیاست کی شکلیں بدلتی رہی ہیں۔لوگوں کو زمانے کے دکھ اور غم و اندوہ کے مختلف حالات سے سابقہ ایوان اقتدار کے بعض فیصلوں کے سبب اٹھانا پڑا ہے۔ہر ز مانے میں ان کا بیان ہوتا رہا ہے۔ غم و اندوہ کی مختلف شکلیں جو عوامی روایت کی غماز ہیں اظہر عنایتی کے یہاں بھی ہیں۔ان اشعار کا دورانیہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے لیکن پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی چند روز پہلے ہی انھیں شعری قالب میں ڈ ھالاگیا ہے۔ان کا ایک مشہور شعر جسے بنیادی طورپرزمیں دارانہ تناظر میں دیکھنا چاہیے اور اس میں سیاست سے کہیں زیادہ تہذیبی شکست و ریخت کا عنصر ہے آج بھی اپنی معنویت کا غیر معمولی جواز رکھتا ہے۔

وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے

عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

حکمراں طبقہ صرف اپنی ناموری چاہتا ہے اور اس کے بہت سے فیصلے صرف اسی تناظر میں ہوتے ہیں۔یہ قصہ بھی جانا پہچانا ہے۔

ضدہے تاریخ کو بدلنے کی

اور نیا کچھ لکھا نہیں جاتا

اب پوری دنیا کے حالات اور واقعات ہمارے سامنے خبروں کی صورت میں بہت جلد آجاتے ہیں۔ظالم حکمرانوں کی تاریخ سے بھی لوگ واقف ہیں۔حالات کا جبر کیا ہوتا ہے اور اسے لوگ کس طرح سہتے ہیں یہ صرف سہنے والے ہی جانتے ہیں۔صدیوں کے تاریخی تسلسل کو دو مصرعوں میں بیان کردیا گیاہے۔

ظلم پر احتجاج کس سے کریں

ہم تو ظالم کی بارگاہ میں ہیں

اسی طرح کے بعض اشعار جن میں سیاسی شعور کی کارفرمائی ہے۔ان اشعار کو پڑھتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ان اشعار کو کسی ایک خاص زمانے یا عصر سے موسوم نہیں کرسکے۔بلکہ تاریخ کے مختلف عہد اپنی اپنی فہم سے ہم دیکھ سکتے ہیں۔

گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آگیا

لیکن تمام شہر اجالے میں آگیا

محبتوں کی فضا خود تو ختم ہوتی نہیں

کوئی تو ہے جو یہ نفرت کا زہر گھولتا ہے

پرانے عہد میں بھی دشمنی تھی

مگر ماحول زہریلا نہیں تھا

سیاسی مظاہر کی بعض حیرتناک عملی صورتیں ہیں جنھیں دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ کیا اسے بھی شعری پیکر عطا کیا جاسکتا ہے۔مشاعروں کے توسط سے کتابوں تک اظہر عنایتی کا ایک شعر ایسا ہے جسے محض حالات کا عکاس کہہ سکتے ہیں مگر اس بات کو جس سلیقے سے کہا گیا ہے اور لفظ’پتھر‘ کا جیسابھر پور تخلیقی استعمال کیا گیاہے کہ اسے پڑھنے والا حیرت زدہ رہ جائے۔شعر ملاحظہ کریں۔

چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر

جولوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہوگئے

اظہر عنایتی کا تہذیبی شعور بھی بہت بالیدہ ہے۔وہ جہاں سیاست و آئینہ دکھاتے ہیں،وہیں تہذیبی رسوم و آداب اور اس کے زیاں کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔رام پور کی تاریخ اور اس کا تہذیبی حسن صرف کتابوں تک نہیں ہے بلکہ آج بھی وہ بہت سے وجود کا حصہ ہے۔اظہر عنایتی نے اس کے مختلف پہلوؤں کو بہت قریب سے دیکھا اور برتا ہے شاید اسی لیے ان کی شاعری کا ایک توانا حصہ اسی تہذیبی بیانیے پر مشتمل کہاجاسکتاہے۔ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کیسا زندہ اور سچا شعر انھوں نے خلق کیاہے۔  ؎

راستو! کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے

میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے

یہ شعر بھی انھیں دنوں کی یاد دلاتا ہے   ؎

اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں

لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے

لیکن جب ز مانہ اور حالات بدلے۔تو بہت کچھ تبدیل ہوتا چلا گیا۔انسانی وجود محض ایک خالی جسم کے مانند رہ گیا اور کچھ نہیں  ؎

کیا عجب لوگ تھے کچھ بھی نہ کیا اس کے سوا

زندگی کاٹ دی شاہوں کی ثنا خوانی میں

انسانی بستیاں پرچھائیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ وہ شناخت ہی باقی نہ رہی۔

یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے

رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے

افسوس اور حیرت کی یہ صورت بھی دیکھنی پڑی   ؎

اس حویلی سے کئی کبھی چاند نکلتے تھے کبھی

آگئے ہیں تو دروبام کو تکتے جائیں

اس تہذیبی شکست کو اظہر عنایتی کی آنکھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور مشاہدہ کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقی درو ں بینی نے بہت قریب سے اور مختلف زاویوں سے شعری قالب عطا کیا۔

شکستگی میں بھی کیا شان تھی عمارت کی

کہ دیکھنے کو اسے سر اٹھانا پڑتا ہے

پکے گھروں نے نیند بھی آنکھوں سے چھین لی

کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے

ضدیں تو شان ہوا کرتی ہیں رئیسوں کی

جو چوتھی سمت نہ جائے وہ شاہزادہ کیا

غلام اب نہ حویلی سے آئیں گے لیکن

حضور آج بھی تالی بجا کے دیکھتے ہیں

تہذیبی زیاں اور شکست کا یہ پہلو جس میں کسی حد تک سیاسی کارفرمائی بھی رہی ہے مگر ایک فن کار نے جس طرح دیکھا ہے وہ آپ بیتی سے جگ بیتی کی شکل بنتی چلی گئی ہے۔نہیں معلوم کتنے علاقے اپنی تہذیبی شناخت کھوتے چلے گئے،جس نے یہ صورت بھی پیدا کردی۔

ہٹ کر محاذ جنگ سے وہ ڈرلگا اسے

پتا کہیں جو کھڑکا تو لشکر لگا اسے

اظہر عنایتی کو پڑھنے والے ان کی نشتریت سے بھی واقف ہوں گے۔ان کے یہاں طنز کا بہت بالیدہ شعور ملتا ہے۔بظاہر وہ اپنی ذات کو سامنے رکھ کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں مگر وہ کسی ایک فرد یا شحص کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔اس میں زیاں بھی ہے۔تجاہل اور رتغافل بھی ہے اور نقد و تنقید کے پہلو بھی۔اس طرح کے اشعار اپنا ایک خاص لطف اور حوالہ رکھتے ہیں۔

ڈھونڈتے ہیں معاشقے ناقد

میں بھی اظہر کسی پہ مرجاؤں

یہ شعر اس تنقیدی رویے پر خوب صورت طنز ہے جو فن پارے کے حسن و قبح کے نجائے شخصیت کے قبح کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔دوسرے مصرعے میں ”کسی پہ مرجاؤں“کا فقرہ بہت بلیغ ہے۔یہ شعر بھی اپنے ایک خاص تناظر کی وجہ سے لطف دے گیا ؎

بہت مخلص ہیں اس کے گاؤں والے

پڑھا لکھا مگر کوئی نہیں ہے

قصوں کا حسن تو ہوتا ہی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کی داستان بہت دلفریب ہوتی ہے۔اس پر کیا خوب صورت طنز ہے۔

لوگ یوں کہتے ہیں اپنے قصے

جیسے وہ شاہجہاں تھے پہلے

یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں   ؎

آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے

جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے

محمد علوی کاشعر بھی اسی طرح کا ہے  ؎

وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا

بہت برا تھا مگرآج سے تو بہتر تھا

اظہر عنایتی کی غزل اپنا حسن اور اپنا جواز رکھتی ہے۔ان کے یہاں قدما کی طرح بہت جہتیں اور پہلو ہیں اور اسی لیے انھیں پڑھ کر لطف و کیف کی بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ان کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ مشاعروں کے اسٹیج پر مصرو ف رہتے ہوئے بھی مجموعہ کلام کی اشاعت سے کبھی غافل نہیں رہے۔

اظہر عنایتی کی شاعری سے شغف رکھنے والوں تک یہ خوش خبری پہنچ چکی ہوگی کہ چند ماہ پہلے ’کائنات سخن‘ کے نام سے ان کا کلیات شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔ پروفیسر شہزاد انجم(شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اسے مرتب کیا ہے۔کلیات میں غزلوں کے علاوہ نظمیں اور نعتیہ کلام بھی شامل ہے۔پروفیسر شہزاد انجم نے ایک ممتاز شاعر کے کلام کو نہ صرف یکجا کیا ہے بلکہ اس پر ایک پرمغز مقدمہ بھی تحریر کیا ہے۔شاعر سے متعلق جملہ معلومات بھی خاصی وقیع ہیں۔

اظہر عنایتی کا تعلق رام پور کے ادبی خانوادے سے ہے۔ انھوں نے بچپن سے ہی شعرو ادب کے ان اساطین کو دیکھا اوران کی صحبتیں اٹھائی ہیں ہے،جن کا ذکر اب صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔اسی صحبت،بزرگوں سے تعلق اور لگاؤ کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ نصف صدی کی شعری سرگرمی تہذیبی شائستگی کی آئینہ دار ہے۔شہرت و مقبولیت کی معراج پر پہنچنے کے باوجو د انکسار و عاجزی کی سراپا تصویر بنے رہتے ہیں۔چھوٹوں پر عنایتوں اور نوازشوں سے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا اور بڑوں کے ادب و احترام کا کوئی بھی لمحہ ضائع نہیں کیا۔

اظہر عنایتی نے اپنے شعری سفر کا آغاز8 195میں کیا۔ان کا شمارمشہور استاد شاعر محشر عنایتی کے ممتاز شاگردوں میں کیا جاتا ہے۔خود کلامی،اپنی تصویر،جھونکا نئے موسم کا،آرزوئے نجات ان کے مجموعے کلام ہیں جو شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکے ہیں۔ہندستان سے باہر امریکہ،قطر،دبئی،ابوظہبی،شارجہ،مسقط،پاکستان،سعودی عرب،بحرین،کویت،لندن اورکناڈا جیسے ممالک میں مشاعرہ پڑھنے کا سلسلہ 1990سے شروع ہوا جوابھی تک جاری ہے۔

غزل کے دلربا لہجے میں بولوں

وہ آجائے تو میں پھولوں میں تولوں