کلام کو سلام

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 28-07-2024
کلام کو سلام
کلام کو سلام

 

عمیر منظر 

شعبۂ اردو 
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس 
 
جدوجہد اور عمل پیہم سے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے اور دنیا کو ایجاد و انکشاف کی سطح پر بہت کچھ دینے والوں میں ایک اہم نام میزائیل مین اے پی جے عبدالکلام (ابو بکر زین العابدین عبدالکلام )کا ہے۔وہ تمل ناڈو میں 15،اکتوبر 1931کو پیدا ہوئے ۔زندگی کا ابتدائی حصہ بہت غربت میں گزارایہاں تک کہ ابتدائی تعلیمی زندگی کے دوران وہ اخبارات تقسیم کیا کرتے تھے ۔مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی سے خلائی سائنس میں انھوں نے گریجویشن کیا تھا ۔تامل ناڈو کے ساحلی علاقے سے دلی تک کے سفر میں بہت سے مقامات آئے مگر انھوں نے قیام کے بجاے سفر کو ترجیح دی اور اسی لیے عمر کی آخری منزل تک سرگرم عمل رہے ۔کسے خبر تھی کی ہندستان کے دوردراز ساحلی علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ انسان ایک دن سائنس و انکشاف کی دنیا کا مرکزی حوالہ بن جائے گا ۔ڈاکٹر عبدالکلام صاحب کی زندگی جس جدوجہد اور عمل پیہم سے عبارت تھی اس کی مثالیں شاذ نہیں لیکن یہ ضرور ہے ان کا دل جس طرح دنیا اور دنیاوی آلائشوں سے خالی تھا اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی ۔بڑے بڑے عہدوں اور مناـصب پر انھوں نے کام کیا مگر طبیعت کی سادگی اور مزاج کی نرمی نے دنیا کو اپنے اوپر حاوی نہیں دیا ،دنیا اور سامان دنیا ان کے قدموں کا کبھی بوجھ نہیں بن سکے ۔
ڈاکٹرعبدالکلام کے علمی کمالات سے ہندستان نے جو دفاعی استحکام حاصل کیا اور سائنسی ترقی کی جس شاہراہ پر قدم رکھا وہ تاریخ ہند کا قابل فخر واقعہ ہے اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وطن سے محبت اور اس کے دفاع کے لیے سرگرم لوگ نعرہ نہیں لگاتے بلکہ کام کرتے ہیں اور مسلسل کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اپنی ساری صلاحیتیں اسی راہ کے لیے وقف کردیتے ہیں ۔کلام صاحب زندگی کا مطالعہ کرنے والوں نے لکھا ہے ان کے والدین تو انھیں کچھ اور بنانا چاہتے تھے مگر ان کی خواہش پائیلٹ بننے کی تھی ۔خواہش صرف خواہش کرنے سے پوری نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے محنت اور جدوجہدلازمی ہے۔یہ کلام صاحب کے عمل کا کمال ہے کہ ان کی نہ صرف خواہشیں پوری ہوئیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں کی امیدوں اور آرزؤں کا مرکز بھی بن گئے ۔
تاریخ کے صفحات میں ایسے انسان کم ملتے ہیں جن کے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ کام ہے کیونکہ کلام صاحب ‘‘کام ’’کرنے کو زندگی کی کامیابی کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پر چھٹی کے بجائے ایک دن مزید کام کیا جائے ۔میزائیل مین نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر خود تلاش کی۔خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے انھوں نے کس قدر محنت کی ہے اس کے لیے صرف ایک واقعہ کا ذکر یہاں کرنا چاہوں گا ۔وہ ایم آئی ٹی کا ایک اہم واقعہ ہے جس میں نیچی سطح پر مار کرنے والے ہوائی جہاز کو ڈیزائن کرنے کے ایک پروجیکٹ کا ہے ۔جس میں ان کے پانچ ساتھیوں کی ایک ٹیم کام کررہی تھی۔حبیب الرحمن چغتائی کے بقول :
ایک دن ان کے ڈیزائن ٹیچر پروفیسر سری نواسن جو اس وقت ایم آئی ٹی کے ڈائرکٹر بھی تھے اچانک ان کے کام کی پیش رفت کا جائزہ لینے آگئے ۔ان کے کام کو انھوں نے بے حد ناقص اور مایوس کن بتایا۔انھوں نے تاخیر کی کئی تاویلیں پیش کیں لیکن پروفیسر نے ایک بھی تسلیم نہیں کی ۔عبدالکلام نے آخر کار ایک مہینے کی مہلت طلب کی تاکہ اس کام کو پورا کرسکیں گے۔مگر انھوں نے صرف تین دن کی مہلت دی اور وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ اگر یہ کام وقت مقررہ میں پورا نہ ہوا تو ان کا وظیفہ منسوخ کردیا جائے گا ۔ان کے اوسان خطا ہوگئے ۔یہ وظیفہ ہی تو تھا جو وہ ایم آئی ٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے ۔انھوں نے اپنے سارے قوی کو مجتمع کیا اور اس چیلنج کو قبول کرلیا ۔دن رات ایک کردیا ،کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہا جس دن یہ کام پورا ہواچاہتا تھا کہ اچانک اسی صبح ان کے استاد دبے پاؤں ان کے کمرے میں داخل ہوئے تاکہ یہ معلوم کرسکیں کہ کام کس منزل میں ہے ۔انھوں نے عبدالکلام کو سینے سے لگالیااور پیٹھ ٹھوک کر خوب شاباشی دی اور کہا کہ یہ کام تین دن میں ممکن ہی نہیں تھا مگر تم نے اسے کردکھایا ۔وہ ان کے حوصلے ،خود اعتمادی اور محنت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔(تہذیب الاخلاق ستمبر ۲۰۱۵ص۱۶) 
ان کا سب سے اہم خواب ہندستان کو راکٹ اور میزائیل کی ٹکنالوجی میں خود کفیل بنانے کا تھا ۔دنیا نے دیکھا کہ اس خواب کو بھی انھوں نے اپنی زندگی میں ہی شرمندہ تعبیر کرلیا ۔دراصل ان سب کے پیچھے وہی محنت اور جدوجہد ہے۔ وہ ایک سچے اور اپنے وطن سے غیر معمولی محبت کرنے والے انسان تھے اور کسی بھی محب وطن کا بنیادی شیوہ یہی ہوتا ہے وہ اپنے وطن کو دفاعی اعتبار سے استحکام عطا کرے ،اس کا کوئی فعل اس کے برعکس کا نہ ہو ۔محب وطن تعمیر کی طرف گامزن ہوتا ہے اوراس کا سفر تعمیر سے تعمیر تک ہی ہوتا ہے ۔کلام صاحب کی کوششوں کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے ۔
ان کی سائنسی خدمات اور تحقیق کی معراج میزائیل پروگرام ہے ۔اور پے درپے انھوں نے پرتھوی،ترشول،آکاش،ناگ اور اگنی کا تجربہ کرکے نہ صرف ہندستان کی دفاعی لائن کو مستحکم کیا بلکہ علم و تحقیق کے میدان میں بھی ہندستان کا سربلند کیا ۔۲۵فروری ۱۹۸۸ کو پرتھوری کے تجربہ کے بعد انھوں نے لکھا تھا کہ :
اس اڑان نے ترقی یافتہ ملکوں کی نیندیں حرام کردیں ...مغربی بلاک کا رد عمل شروع میں صدمے اوربعد میں غصے کا تھا...ہندستان خود اعتماد ملک کی حیثیت سے ابھرا جس نے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کو تہہ و بالا کرڈالا(پروازص ۱۶۴) 
اگنی کا تجربہ کلام صاحب کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔ان کی خود نوشت کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے ایک وقت میں ان کی سب سے بڑی خواہش اگنی کے تجربے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔اس بارے میں لکھنے والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی زندگی کی تمام خواہشیں اگنی کا پیکر بن چکی تھی ۔اگنی کا تجربہ ان کی زندگی کی پانچ سالہ محنت کا نتیجہ تھیں ۔اس تجربے کو اپنی زندگی کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا اور اس کی خوشی میں ایک نظم بھی کہی ۔
اگنی کو دیکھو نہ تم اس نظر سے 
بلندی کی جانب رواں 
نحوست مٹاتا 
تمہاری طاقت کا اظہار کرتا 
یہ اک شے ہے فقط 
قلب ہندی میں ہردم دہکتی 
یہ ایک آتش جاوداں ہے 
خدا را نہ سمجھو اسے 
ایک میزائیل فقط
نازش ملک و ملت ہے یہ 
باعث فخر و عزت ہے یہ 
یہ فخر ہندوستاں ہے 
جو باقی رہے گا سدا 
(پرواز ص ۱۷۱)
یہ علم ودانش کی طاقت ہے اور کسی بھی ملک کے دفاع اور تحفظ کے لیے ضروری ہے ۔اس عظیم سائنس داں کو معلوم تھا کہ اس تجربے کے بعد اس کی ذمہ داری مزید بڑھ جائے گی ۔طاقت کی یہ علامت ملک اور اہل ملک کے لیے قابل فخر اسی وجہ سے ہے کہ اس پر اختیار رکھنے والے ہر طرح کے سرد و گرم حالات سے واقف ہیں وہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو طاقت کا بے جا استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔شعری پیکر میں نہایت بلیغ اشارہ ہے ۔
اے پی جے عبدالکلام کی زندگی کا ایک اہم خواب وہ ہدف بھی تھا جو انھوں نے پانچ سو سائنس دانوں کی مدد سے ‘‘ٹکنالوجی وژن ۲۰۲۰’’کے نام سے تیار کیا تھا ۔اس کامقصد ملک کی معاشی ترقی اور خوش حالی کے وہ منصوبے تھے جن پر عمل آواری مفید نتائج کی ضامن تھی ۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی نگاہ صرف دفاع تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ ہر اعتبار سے ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے سرگرم رہنے والے انسان تھے۔ان کی کوشش تھی کہ تعمیر و ترقی کا کوئی باب ادھورا نہ رہے اور یقیناملک کی ترقی اور خوش حالی میں ان کوششوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔دراصل یہ بنیادی راہیں تھیں جو عبدالکلام صاحب نے دکھائی تھیں ۔ 
اے پی جے عبدالکلام کی ان عظیم خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا ۔۲۰۰۲ میں وہ صدر جمہوریہ ہند کے باوقار عہدہ پر فائز ہوئے ۔انھوں نے اپنی سادگی اور کام کرنے کی لگن کی ایک عوامی مثال قائم کی ۔ان کی عظیم خدمات کے عوض ہی انھیں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن سے 1997میں نوازا گیا۔ہندستان کے دفاعی استحکام میں عبدالکلام کو ان خدمات کے سبب ہی مدتوں یاد کیا جائے گا اور ان کی علمی کارگزاریوں سے استفادہ کیا جاتا رہے گا ۔