شب برات: قرآن و احادیث کی روشنی میں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-02-2025
شب برات: قرآن  و احادیث کی روشنی میں
شب برات: قرآن و احادیث کی روشنی میں

 

زیبا نسیم : ممبئی

شعبان المعظم کا مہینہ برکتوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کی 15 ویں رات جو شب برات کے نام سے مشہور ہے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ "شب" کے معنی رات اور "برات" کے معنی چھٹکارے کے ہیں، یہ رات اللہ رب العزت کی رحمتوں اور مغفرت کا خاص موقع ہے۔سلامی دنوں میں سے چند دن یا راتوں کو اسی لئے فضیلت و اہمیت حاصل ہے کہ یہ دن اور راتیں دوسرے دنوں اور راتوں کے مقابلے میں ایک خاص نمایاں اور منفرد اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں۔ شبِ برأت بھی ایسے ہی خاص دنوں اور راتوں کے قبیل سے تعلق رکھنے والی راتوں میں سے ایک اہم رات ہے جس میں احساسِ زیاں کو اجاگر کرنا مقصد ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کو شبِ برأت کہا جاتا ہے۔ اس رات کو مسلمانوں میں فضیلت و اہمیت کا باعث اور مبارک تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۂ دخان کی ابتدائی پانچ آیات کے متعلق بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ان آیات میں ’’مبارک رات‘‘ سے مراد یہی شعبان کی پندرہویں شب ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’قسم ہے اس روشن کتاب کی کہ ہم نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا، بے شک، ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔ اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ ہمارے خاص حکم سے ‘‘۔ (سورۂ دخان :۵۶) بعض مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ سورۂ دخان کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں جس ’’مبارک رات‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ شعبان کی پندرہویں شب ہی ہے‘‘۔

احادیث نبوی ﷺ میں بھی اس رات کی فضیلت میں روایات موجود ہیں۔ سب سے مشہور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک رات بسترِ استراحت پر نہ پایا تو میں آپ ﷺ کی جستجو میں نکلی، آپ ﷺ کو بقیع (جنت البقیع) میں اس طرح پایا کہ آپ کا سر مبارک آسمان کی طرح اٹھا ہوا تھا۔ تب آپﷺ (نے مجھے دیکھ کر ) فرمایا کہ (اے عائشہ ؓ) کیا تمہیں اس بات کا خدشہ ہوا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ تم پر ظلم کریں گے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے یہ سوچا کہ شاید آپ ازواج مطہرات ؓ میں سے کسی اور زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں شب اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزولِ اجلال فرماتا ہے۔ اور قبیلہ’’ بنی کلب‘‘ کی بھیڑ ، بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں اپنے بندوں کو بخشتا ہے۔ (جامع ترمذی)

اس حدیثِ مبارکہ میں دو الفاظ بہت اہم اور شرح طلب ہیں، ایک تو یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے‘‘۔ ایسے الفاظ اکثران احادیث میں وارد ہوئے ہیں جو رات کے آخری حصے سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمانا کیا ہے، اس کی حقیقت تو اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن ہمارے فہم و عقل اور سمجھنے کے لئے اس استعارے کی توجیہ یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے بندوں کے قریب سے قریب بہت ہی قریب آجاتا ہے اور اپنے بندوں کو مغفرت کے لئے پکارتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت، رزق، صحت چاہے کہ میں اسے بخش دوں، رزق دوں، صحت دوں، بس بندے کے لئے اس وقت ہاتھ اٹھانے کی دیر ہوتی ہے کہ بندہ اپنا ہاتھ بارگاہِ الہٰی میں بلند کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔

دوسری تشبیہ ’’بنو کلب‘‘ کی بھیڑ، بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت سے ہے۔ ’’ بنو کلب‘‘ عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا جن کا پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا تھا۔ لہٰذا یہ بہت ہی کثرت سے بھیڑ بکریاں پالتے اور اُن کا کاروبار کرتے۔

اب ذرا غور کریں ایک دو نہیں، دس بیس، سو دو سو، ہزار نہیں، بلکہ پورے قبیلے کے ہر گھر اور ہر گھر کے ہر فرد کے پاس ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں تھیں، ان کی تعداد کا اندازہ نہیں پھر ایک ایک بھیڑ یا بکری کے جسم پر موجود بال ان گنت شمار سے ماوراء اور بھیڑ بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ مغفرت کرنے کے دو مطلب ذکر کئے گئے ہیں۔

پہلا مطلب یہ کہ اس سے گناہ گار مراد ہیں کہ اس قدر کثیر تعداد میں گناہ کاروں کی مغفرت ہوتی ہے، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے گناہ گاروں کے گناہ مراد ہیں کہ اگر کسی بندے کے گناہ بنو کلب کی تمام بھیڑ بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ اس شب میں اپنے فضل و کرم اورشانِ رحمت و مغفرت سے انہیں معاف فرما دیتا ہے۔

شب برأت کی فضیلت میں ایک اور حدیث حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’یقینا ًاللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں سوائے مشرک اور کینہ پرور کےسب اہل ایمان کو بخش دیتا ہے۔ (ابنِ ماجہ)

شب برأت سے متعلق قرآن و حدیث کی اِن تعلیمات و احکام کا خلاصہ کچھ یوں ہو گا کہ شب برأت میں رات کو عبادت کی جائے، رات کے بعد دن کا روزہ رکھا جائے، اس رات کو غروب آفتاب سے صبح صادق تک اللہ کی تجلیات کا آسمان دنیا پر نزول ہوتا ہے، یعنی اللہ بندوں کے بہت قریب آجاتا ہے۔

بندوں کو بخشش، رزق، مصیبت سے نجات ، اور عطا کی آواز دیتا ہے۔ حاجت روائی کی ذمہ داری لیتا ہے۔ مشرک اور کینہ پرور شخص کے علاوہ سب گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔ شبِ برأت میں رسول اللہ ﷺ بقیع کے قبرستان میں تشریف لے گئے، اسی رات پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

ان تعلیمات کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ شبِ برأت بھٹکے ہوئے، سرکش و گناہ گار لوگوں کے لئے ایک دستک ہے جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گور کھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔

شبِ برأت ہمیں محاسبہ نفس، توبہ اور تجدید عہد کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ ہم توبہ کے ذریعے اپنی دنیا اور آخرت کے لئے فلاح و کامرانی کا سامان تیار کریں۔ یہ شب آخرت سنوارنے کے لئے ایک فکر کانام ہے۔

شبِ برأت رمضان سے پہلے اللہ اور رسول ﷺ سے دوری ختم کر کے قربتِ خداوندی کا ایک موقع ہے، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت و اطاعت کی طرف ایک دعوت ہے جسے قبول کر کے مومن اپنے رمضان کو آسان بنا سکتا ہے

شعبا ن المعظم کے مہینے میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جو بہت زیادہ برکت اور فضیل  والی ہے ۔ اس رات کو شب برات کی رات کہا جاتا ہے جو کہ چاند کی پندرہ تاریخ کو آتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہر حکمت والا کام ۔(سورة الدخان )

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی روزی مانگنے والا میں اسے رزق عطا کر دوں ۔ ہے کوئی اولاد مانگنے والا میں اسے اولاد عطا کر دوں ۔ ہے کوئی مشکلات میں گھرا ہوا میں اسے عافیت دوں ۔ ہے کوئی ایسا اور ہے کوئی ایسا اللہ تعالیٰ صبح صادق ہونے تک فرماتا رہتا ہے ۔

حدیث شریف میں آتا ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا کہ شب برات کی عزت کرو اس رات جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے آزاد فرما دیتا ہے اور جو تم میں سے پندرھویں شعبان کے دن روزہ رکھے تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : شعبان کی پندرھویں رات اللہ تعالیٰ پورے سال کا حساب کتاب کرتا ہے کہ کون سا بچہ پیدا ہو گا ، کون مرے گا ۔ اس رات بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں پیش کیے جاتے ہیں اور رزق کی تقسیم بھی اسی رات کو ہی کی جاتی ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ، اپنا سر اقدس آسمان کی طرف اٹھائیں۔ میں نے پوچھا یہ کیسی رات ہے تو جبرائیل امین نے عرض کی یہ ایک ایسی رات ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور مشرک کے سوا سب کو بخش دیتا ہے اور ساحر،کاہن اور زانیوں کو نہیں بخشتا۔

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے سوائے مشرک اور اس شخص کے جو اپنے مسلمان بھائی سے بغض رکھے اسے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس با برکت اور فضیلت والی رات میں ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کریں، ذکر واذکارکریں اور نبی کریمﷺکی ذات اقدس پر کثرت سے درود پاک پڑھیں اور اپنی بخشش کا سامان جمع کریں۔

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو (یعنی نماز نفل ادا کرو) اوردن کو روزہ رکھو کیونکہ اس رات میں اللہ کی تجلی غروبِ آفتاب ہونے کے ساتھ ہی آسمان دنیا پر ظاہر ہوتی ہے اور پھر اللہ پکارتا ہے کہ ہے کوئی کہ مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں، ہے کوئی حاجت یا ضرورت والا کہ میں اس کی حاجت روائی کروں؟ صبح صادق فجر تک اللہ یہی فرماتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام شعبان کے روزے رکھ کر اسے رمضان سے ملا دیتے تھے اور آپ کسی بھی مہینے کے تمام روزے نہیں رکھتے تھے، سوائے شعبان کے، میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ شعبان کا مہینہ آپ کو بہت پسند ہے ؟

آپ اس کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! اے عائشہؓ جو بھی (انسان) پورے سال میں فوت ہوتا ہے، اس کی اجل (موت ) شعبان میں لکھ دی جاتی ہے تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میری موت لکھی جائے تو روزے دار ہوں اور اللہ کی عبادت اور عمل صالح میں مصروف ہوں۔ (تفسیر درالمنثور)