ڈاکٹرمحمد اسجد انصاری
اسسٹنٹ پروفیسر/ جامعہ ملیہ اسلامیہ
جامعہ کی ابتداء کچھ اس طرح ہوئی کہ 4 /ستمبر1920 کومہاتماگاندھی نے جب قومی سطح پر تحریک عدم موالات کاآغازکیا .اور سوراج کا مطالبہ کیا تو اس میں مغربی تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرکے اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنا بھی تھا۔اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مہاتماگاندھی مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، عبدالمجید خواجہ، ڈاکٹرمختاراحمد انصاری، مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ مجاہدین آزادی کی جماعت تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے پورے ملک میں دورے کررہی تھی۔انھیں دوروں میں مسلم یونیورسٹی کے کچھ طلبانے علی برادران اور گاندھی جی کو علی گڑھ آنے کی دعوت دی۔وہیں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کچھ طلبا اوراساتذہ کے ساتھ29 /اکتوبر 1920 بروزجمعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جامع مسجدمیں عظیم مجاہدآزادی اورریشمی رومال تحریک کے روحِ رواں شیخ الہندمولانامحمودحسن کے ذریعے باقاعدہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کاقیام عمل میں آیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کاقیام اورمحرکات
شیخ الہندکی کی طبیعت ناسازتھی اس لیے تاسیسی خطبہ مولاناشبیر احمد عثمانی نے ان کی موجودگی میں پڑھا۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کئی اساتذہ اور طلبا اب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوگئے. جن میں ذاکرحسین کا نام سرِ فہرست ہے۔شیخ الہندمولانامحمودحسن نے جامعہ کے مقاصد کو کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ”مسلمانوں کی تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور اغیارکے اثرسے مطلق آزاد۔کیا بااعتبارعقائد وخیالات اور کیا بااعتباراخلاق واعمال ہم غیروں کے اثرات سے پاک ہوں اور ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے سستے غلام پیداکرتے رہیں بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہئیں بغداد اور عاجلہ کے مقابلہ آخرہ زیادہ عزیزتھی قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے جنھوں نے یورپ کو اپناشاگردبنایااس سے بیشترکہ ہم ان کو اپنا استادبناتے۔ یہ ایسا تاریخی لمحہ تھاجب ملت کے تشخص اور بقاء کے لیے اور انگریزوں کے مسموم تعلیمی نظام سے اپنی نئی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لیے چند بوریہ نشیں انتہائی مفلوک الحالی میں ایک ادارے کی بنیادڈال رہے تھے. جو مستقبل میں نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی دانشگاہوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنی عظمت کو لوہا منوارہاہوگا۔اس تاسیسی جلسے کے بارے میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے نے کچھ اس طرح لکھا ہے کہ؛ ”اس وقت کسی بڑے مکان کا سنگ بنیادنہیں رکھا گیا تھا. کسی عمارت کا افتتاح نہ ہوسکتاتھا۔ چندوں کا اعلان بھی نہ ہواتھا. کہ یہ قافلہ سروسامان چھوڑ کربے سروسامانی کی طرف رواں دواں ہورہاتھا۔ یہ وقتی فائدے کے بدلے وقتی نقصان کا سوداکررہاتھا۔اسے عاجلہ کے مقابلہ آخرہ زیادہ عزیزتھی۔وہ محنت اور مشقت کا عزم لے کر تعمیر نوکے لیے نکلا تھا اور اس کی کلفتوں اورمحنتوں کو دوسری سہولتوں اور تن آسانیوں سے زیادہ عزیزرکھنا چاہتاتھا۔یوں اور اس فضامیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کاکام شروع ہواتھا29 اکتوبر1920 کو۔
چند خیموں میں جامعہ کے مستقبل کا خواب دیکھا گیا
جامعہ کی ابتدائی زندگی چند خیموں میں شروع ہوئی تھی۔یہی جامعہ کے طلبا کے ہاسٹل تھے اور یہی درس گاہ اور یہی اساتذہ کی رہائش گاہ۔بوریوں پر یا اپنے چوغوں پر بیٹھ کرپیڑوں کے نیچے یا خیموں میں تدریس وآموزش ہوتی تھی۔انھیں چند خیموں میں جامعہ کے مستقبل کا خواب دیکھا گیا۔وہ خواب جو آج شرمندہئ تعبیر ہورہاہے جسے دیکھ کراہل باطل کی نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔جامعہ کے ابتدائی سالوں کی تاریخ لکھنے والے عبدالغفارمدہولی نے اسے کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ اکثرپڑھائی درختوں کے نیچے ٹاٹ کے فرش پر ہوتی تھی یا جب یہ بھی نہ ہوتاتھاتو اپنے اپنے چغے(چوغے) چٹائیوں کی طرح بچھالیتے۔یہ چغے کیا تھے زندگی کا سامان تھے۔ انھیں اوڑھتے بچھاتے اور طرح طرح سے استعمال کرتے۔ قرآن وحدیث کے اکثرمسائل یا میرؔوسوداؔکے کلام کی بیشتر نکتہ سنجیاں معاشیات اور سیاسیات کے اہم ترین نظریئے اکثران ہی بوریوں پر حل ہوئے ہیں۔
حکیم اجمل خاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پہلے امیر جامعہ
شروع میں مولانامحمد علی جوہرکی تجویزپر علامہ اقبال کو شیخ الجامعہ بنانے کی پیش کش کی گئی لیکن انھوں نے پیش کش قبول کرنے سے معذرت ظاہرکی۔پھر اتفاق رائے سے حکیم اجمل خاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پہلے امیر جامعہ اورمولانا یعنی چانسلر محمدعلی جوہرپہلے شیخ الجامعہ بنائے گئے اورایک فاؤنڈیشن کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی جس میں 74 ممبرا ن تھے۔جامعہ یعنی وائس چانسلرکے ممبران میں مولاناحسرت موہانی، مولاناعبدالماجد، مولاناشوکت علی، ڈاکٹرمختاراحمدانصاری،علامہ اقبال، مولاباابوالکلام آزاد، ڈاکٹرسیف الدین کچلو،مولاناشبیر احمد دیوبندی،سی ایف اینڈریوز اور پنڈت جواہرلال نہرووغیرہ قابل ذکر نام ہیں۔بانیان جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تین سال کی مختصرمدت میں ہے اسے ایک منظم اعلیٰ تعلیمی ادارے کی شکل دے دی. جس میں اسکولی تعلیم سے لے کرکالج کی اعلی جماعتوں تک کی تعلیم کا نظم کرلیاگیا۔1923 کے اواخر تک جامعہ کی اتنی شہرت ہوگئی کہ بہت سے اسکول اس سے الحاق کے لیے درخواستیں دینے لگے اور جامعہ اس کے لیے ایک الگ شعبہ اورعہدہ انسپکٹرآف اسکولز قائم کرنا پڑا جس کے تحت17 اسکولوں کا الحاق کیا گیا۔1923 سے ہی جامعہ کا مشہورمجلہ ’رسالہ جامعہ‘ کا بھی اجراکیا گیا
یہ تعلیم گاہ حکومت کے اثرسے آزادقومی اورملی مصالح کی پابندہو۔
اور ساتھ ہی اسکولی طلبا کی ایک انجمن کی ’بزم کمال‘ اورکالج کے طلبا کی ’انجمن اتحاد‘کی تشکیل عمل میں آئی۔انجمن اتحادمیں اکثروہ طلبا تھے جو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو چھوڑکرآئے تھے۔اب وہ وقت آگیا تھا کہ جامعہ کا ایک دستورمرتب ہوجس میں جامعہ کے مقاصد، مشن اور ویژن کا بیان ہو۔بانیان جامعہ کی تقریروں اورتحریروں سے جامعہ کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے اسے عبدالغفارمدہولی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛ ۔۔۔اس کے بانیوں یعنی شیخ الہند مولانامحمودحسن، مولانامحمد علی، حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹرانصاری کی تقریروں اور تحریروں میں جن مقاصد کا اظہارکیا گیا وہ یہ تھے۔
یہ تعلیم گاہ حکومت کے اثرسے آزادقومی اورملی مصالح کی پابندہو۔
اس کی تعلیم میں دینی اوردنیوی، قدیم اورجدیدعناصرکا صحیح امتزاج ہو۔
وہ ملک کی آزادی اور ہندوستانی قومیت کی تحریک میں حصہ لے۔