نئی دہلی : آواز دی وائس
بنگال کے ہوڑہ تعلیمی تحریک کے روح رواں مامون اختر کے خوابوں کی تعبیر Samaritan Help Mission میں ایک اور خوابی مہمان امریکی سفیر ایرک گارسیٹی کی آمد نے ہر کسی کی توجہ حاصل کرلی ۔جنہوں نے اس تعلیمی مشن کو ایک مثال قرار دیا اور مامون اختر کی کوششوں کو سلام کیا ۔ ساتھ ہی کہا کہ میں مشن کی خدمات سے بہت متاثر ہوا کیونکہ جس طرح تعلیم کے ساتھ معاشی سہارا مہیا کیا جارہا ہے وہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔کیونکہ ساڑھے چھ ہزار بچوں کی تعلیم اور تربیت کا کام آسان نہیں ہے ۔
امریکی سفیر نے ہوڑہ کے ٹکیا پاڑہ میں واقع مشن کا دورہ کیا ۔ انہوں نے کلاس روم کا جائزہ لیا، بچوں سے بات چیت کی ،تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔یہی نہیں مشن کے میدان میں فٹ بال کی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا ۔ امریکی سفیر نے مشن کے کاموں کی خوب سراہنا کی اور مامون اختر کو ایک غیر معمولی ماہر تعلیم بتایا ۔
آپ کو بتا دیں کہ مامون اختر نے 8 اگست 2001 کو ایک تعلیمی رضاکارکے طور پر اپنی کوشش کا آغاز کیا تھا۔ ان کا مقصد ہوڑہ کے ٹکیاپارہ کی کچی آبادیوں کے پسماندہ طبقات کو معیاری تعلیم فراہم کرنا تھا۔ اس کچی آبادی کی آبادی تقریباً 3.5 لاکھ ہے جس میں 80 فیصد پسماندہ مسلمان ہیں۔ہوڑہ میں پستی میں زندگی گزارنے والے بچوں کے لیے تعلیمی تحریک بنے مامون اخترکا کارنامہ اب ہر کسی کو متوجہ کررہا ہے کیونکہ خود ساتویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے دیگر ضرورت مند بچوں کے لیے تعلیم کو ممکن بنائی ۔اس بات کو یقینی بنایا کہ گھر کی مالی حالت بہتر نہ ہونے کے سبب کسی کی تعلیم میں رخنہ نہ پڑے-
مامون اختر ایک ایسے بچے رہے تھے ،جو تعلیم سے محروم رہا تھا ،سبب غربت بھی تھا اور ماحول بھی،سہولیات کی کمی بھی ۔ لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس کے دل میں تعلیم کی کسک نے ہزاروں بچوں کے لیے ایسی چھت کا انتظام کردیا جہاں وہ کم سے کم تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔ وہ بچہ اب ۵۰ سالہ مامون اختر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جو مغربی بنگال میں چار اسکولوں کا بانی ہوگیا ۔جن میں فی الحال 6,000 سے زیادہ طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔جن کی نظر میں سب کا ساتھ سب کا وکاس ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مامون اختر کا کہنا ہے کہ میرے اسکول میں مذہب کے نام پر کوئی بھید بھاو نہیں۔