امریکی سفیر نے کیا ہوڑہ میں مامون اختر کے تعلیمی چمن کا دورہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 24-01-2025
امریکی سفیر نے کیا ہوڑہ میں مامون اختر کے تعلیمی چمن کا دورہ
امریکی سفیر نے کیا ہوڑہ میں مامون اختر کے تعلیمی چمن کا دورہ

 

نئی دہلی : آواز دی وائس 

بنگال کے ہوڑہ  تعلیمی تحریک  کے روح رواں  مامون اختر  کے خوابوں کی تعبیر Samaritan Help Mission  میں ایک  اور  خوابی مہمان  امریکی سفیر ایرک گارسیٹی  کی آمد نے ہر کسی کی توجہ  حاصل کرلی ۔جنہوں نے اس تعلیمی مشن کو ایک مثال قرار دیا اور مامون اختر کی کوششوں کو سلام کیا ۔ ساتھ ہی کہا کہ  میں مشن کی خدمات سے بہت متاثر ہوا کیونکہ جس طرح  تعلیم کے ساتھ  معاشی سہارا  مہیا کیا جارہا ہے  وہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔کیونکہ ساڑھے چھ ہزار بچوں کی تعلیم اور تربیت کا کام آسان نہیں ہے ۔

 امریکی سفیر نے ہوڑہ کے ٹکیا پاڑہ  میں  واقع مشن کا دورہ کیا ۔ انہوں نے کلاس روم کا جائزہ لیا، بچوں سے بات چیت کی ،تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔یہی نہیں مشن کے میدان میں فٹ بال کی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا ۔ امریکی سفیر نے  مشن کے کاموں کی خوب سراہنا کی اور مامون اختر کو ایک غیر معمولی ماہر تعلیم بتایا ۔

 آپ کو بتا دیں کہ  مامون اختر  نے 8 اگست 2001 کو ایک تعلیمی رضاکارکے طور پر اپنی کوشش کا آغاز کیا تھا۔ ان کا مقصد ہوڑہ کے ٹکیاپارہ کی کچی آبادیوں کے پسماندہ طبقات کو معیاری تعلیم فراہم کرنا تھا۔ اس کچی آبادی کی آبادی تقریباً 3.5 لاکھ ہے جس میں 80 فیصد پسماندہ مسلمان ہیں۔ہوڑہ میں پستی میں زندگی گزارنے والے بچوں کے لیے تعلیمی تحریک بنے مامون اخترکا کارنامہ اب ہر کسی کو متوجہ کررہا ہے کیونکہ خود ساتویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے دیگر ضرورت مند بچوں کے لیے تعلیم کو ممکن بنائی ۔اس بات کو یقینی بنایا کہ گھر کی مالی حالت بہتر نہ ہونے کے سبب کسی کی تعلیم میں رخنہ نہ پڑے-

مامون اختر ایک ایسے بچے رہے تھے ،جو تعلیم سے محروم رہا تھا ،سبب غربت بھی تھا اور ماحول بھی،سہولیات کی کمی بھی ۔ لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس کے دل میں تعلیم کی کسک نے ہزاروں بچوں کے لیے ایسی چھت کا انتظام کردیا جہاں وہ کم سے کم تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔ وہ بچہ اب ۵۰ سالہ مامون اختر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جو مغربی بنگال میں چار اسکولوں کا بانی ہوگیا ۔جن میں فی الحال 6,000 سے زیادہ طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔جن کی نظر میں سب کا ساتھ سب کا وکاس ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مامون اختر کا کہنا ہے کہ میرے اسکول میں مذہب کے نام پر کوئی بھید بھاو نہیں۔

 آپ کو بتا دیں کہ مامون اختر نے  اپنی قوم کی تعلیمی پستی کو دور کرنے کےلیے جو تحریک شروع کی تھی اس میں ننانوے فیصد غیر مسلموں بشمول یہودیوں نے مدد کی جبکہ مسلمانوں میں صاحب حیثیت بھی حرکت میں نہیں آئے ۔بلاشبہ اب مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی ہے لیکن ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ہندو یا مسلمان سے نہیں بلکہ انسان سے کام لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ٹکیہ پاڑا میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے جو بیڑا اٹھایا تھا اس میں پہلی مدد ایک یہودی خاتون لی ایلیسن سیبلی کے نام رہی جو کے امریکی سفارت کار کی اہلیہ تھیں ،اس کے بعد جو ہاتھ آگے آیا وہ ممبئی کے ایک کاروباری رمیش کچولیا کا تھا۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ مہم کس مذہب کے ماننے والوں کے لیے ہے 

 مدد، عقیدے نہیں ضرورت کی بنیاد پر ۔۔۔۔۔ اس یقین کے ساتھ مامون اختر نے تعلیمی مہم کا آغاز کیا تھا ۔اہم بات یہ ہے کہ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے نوے فیصد بچے مسلمان ہیں جو پسماندہ اور ضرورت مند خاندانوں کے مستقبل کی امید ہیں ۔ سمیریٹن مشن اسکول کو 2022 میں برطانیہ میں قائم ایک تحقیقی تنظیم نے دنیا کے 10 انوکھے اور متاثر کن اسکولوں میں شامل کیاگیا تھا۔مامون اختر کی زندگی میں یہ ایک اور سنگ میل تھا ۔مامون اختر کہتے ہیں کہ اس تعلیمی پہل کا دائرہ اب وسیع ہوچکا ہے اہل بنگال سمیریٹن ہیلپ مشن کے نام سے جانتے ہیں ۔ جس کی زیر سایہ اب چار اسکول ۔۔۔ سامیریٹن مشن اسکول، ایک اسپتال ،ایک وکیشنل ٹریننگ سیٹراور ایمبولینس سروس رواں دواں ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ۔۔ یہ میری جنت ہے۔ ایک تحفہ ہے۔ مجھے ان غریب بچوں کے لیے زیادہ کام کرنے میں غیر معمولی توانائی ملتی ہے جو زندگی میں اونچا اڑنا چاہتے ہیں۔ میں آخری سانس تک کام کروں گا۔