زکوٰۃ: اسلامی معیشت کا فلاحی نظام اور معاشرتی استحکام کا ضامن

Story by  ڈاکٹر شبانہ رضوی | Posted by  [email protected] | Date 30-03-2025
زکوٰۃ: اسلامی معیشت کا فلاحی نظام اور معاشرتی استحکام کا ضامن
زکوٰۃ: اسلامی معیشت کا فلاحی نظام اور معاشرتی استحکام کا ضامن

 

ڈاکٹر شبانہ ‌رضوی

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سماجی انصاف، مساوات، اور معاشی توازن کے قیام کے لیے اسلام نے ایک جامع اقتصادی نظام پیش کیا، جس میں زکوٰۃ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ زکوٰۃ محض ایک مالی عبادت نہیں، بلکہ ایسا فلاحی نظام ہے جو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرکے معاشرتی ہم آہنگی اور طبقاتی توازن کو فروغ دیتا ہے۔زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کی ادائیگی پر سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (البقرہ: 110)

"اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔"

زکوٰۃ ان اشیاء پر فرض کی گئی ہے جن میں اضافہ اور نمو کی صلاحیت ہو اور جو نصاب کی حد کو پہنچ جائیں، تاکہ دولت کا بہاؤ ایک طبقے تک محدود نہ رہے بلکہ مستحقین تک بھی پہنچے، یوں ایک عادلانہ معاشی نظام پروان چڑھے۔

اہلِ سنت کا نظریہ:

اہلِ سنت کے چاروں فقہی مذاہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے مطابق زکوٰۃ درج ذیل اموال پر فرض ہے-

1. سونا اور چاندی – اگر کسی کے پاس 7.5 تولہ سونا یا 52.5 تولہ چاندی ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

2. نقدی رقم – اگر کسی کے پاس نصاب کے مطابق رقم ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

3. تجارتی مال – کاروباری اشیاء پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے۔

4. زرعی پیداوار – زمین سے حاصل ہونے والی اجناس پر مخصوص شرح کے مطابق زکوٰۃ فرض ہے۔

5. مویشی – مخصوص تعداد میں اونٹ، گائے، اور بکریاں رکھنے پر بھی زکوٰۃ دی جاتی ہے۔

6. دفینے اور معدنیات – زمین سے نکلنے والے خزانوں اور کانوں سے نکالی گئی معدنیات پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔

زکوٰۃ کی شرح

نقدی اور تجارتی مال پر زکوٰۃ عام طور پر 2.5فیصد ہے۔

زرعی پیداوار پر زکوٰۃ کی شرح زمین کی آبپاشی کے طریقے پر منحصر ہے:

بارانی زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر 10فیصد

آبپاشی سے اگائی گئی فصل پر 5فیصد

اگر دونوں ذرائع برابر استعمال کیے گئے ہوں تو 7.5فیصد

زکوٰۃ کے مستحقین

قرآنِ کریم کے مطابق زکوٰۃ درج ذیل آٹھ مستحقین کو دی جا سکتی ہے:

فقیر – وہ شخص جس کے پاس بنیادی ضروریات کے لیے مناسب وسائل نہ ہوں۔

مسکین – وہ جو شدید تنگدستی کا شکار ہو۔

3. عاملین زکوٰۃ – وہ افراد جو زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم پر مامور ہوں۔

4. مؤلفۃ القلوب – وہ افراد جنہیں اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو۔

5. غلاموں کی آزادی – غلاموں کو خرید کر آزاد کرانے کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

6. مقروض افراد – وہ افراد جو اپنے قرض ادا کرنے سے قاصر ہوں۔

7. فی سبیل اللہ – اللہ کے دین کی سربلندی اور جہاد کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

8.ابن السبیل – وہ مسافر جو دورانِ سفر مالی مشکلات میں مبتلا ہو جائے۔

زکوٰۃ کے بارے میں سنی اور شیعہ مکاتب فکر کا نقطہ نظر:

اسلام کے دونوں بڑے مکاتب فکر، اہلِ سنت اور شیعہ، زکوٰۃ کو اسلامی شریعت کا بنیادی رکن تسلیم کرتے ہیں، مگر اس کی ادائیگی کے اصولوں، مستحقین اور طریقہ کار میں چند فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

شیعہ نقطہ نظر سے زکوٰۃ اور خمس -

اسلامی فقہ میں زکوٰۃ اور خمس مالی عبادات کا ایک اہم جز ہیں، لیکن اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کے درمیان ان کے احکام میں چند بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ شیعہ فقہ میں زکوٰۃ کے مستحقین، اس کے دائرہ کار، اور خمس کے نظام میں خاص فرق موجود ہے۔

1. زکوٰۃ کے مستحقین میں فرق

شیعہ اور اہلِ سنت کے فقہی نظریات میں زکوٰۃ کے مستحقین کی فہرست تقریباً یکساں ہے، لیکن ایک بنیادی فرق یہ ہے:

"مؤلفۃ القلوب" (وہ افراد جنہیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو)

اہلِ سنت کے نزدیک زکوٰۃ کے مستحقین میں شامل ہیں، جبکہ شیعہ فقہ کے مطابق یہ حکم اسلام کے ابتدائی دور میں مخصوص حالات کے تحت تھا اور اب اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

بنی ہاشم (سادات) کے لیے زکوٰۃ

شیعہ فقہ میں زکوٰۃ بنی ہاشم (یعنی رسول اللہ ﷺ کی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد) پر حرام ہے، جبکہ اہلِ سنت میں اس بارے میں مختلف آراء موجود ہیں۔

2. زکوٰۃ کن چیزوں پر فرض ہے؟

شیعہ فقہ میں زکوٰۃ صرف ان اشیاء پر فرض ہے جن کا ذکر اسلامی نصوص میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، یعنی:

1. سونا اور چاندی

2. گندم اور جو

3. کھجور اور انگور

4. اونٹ، گائے اور بکری

اہلِ سنت کے برخلاف، شیعہ فقہ میں نقدی، تجارتی سامان اور دیگر اجناس پر زکوٰۃ فرض نہیں، بلکہ ان پر خمس لاگو ہوتا ہے۔ مگر اس کا اطلاق سال کے منافع پر ہوتا ہے، جبکہ زکوٰۃ صرف مخصوص اشیاء پر فرض ہے۔

3. زکوٰۃ اور خمس میں بنیادی فرق-

اہلِ سنت کے ہاں خمس عام طور پر صرف جنگ میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت پر واجب ہوتا ہے، لیکن شیعہ فقہ میں خمس کو زکوٰۃ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ اہم تصور کیا جاتا ہے۔

خمس کی شرح 20 فیصد (پانچواں حصہ) ہوتی ہے اور یہ دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

1. آدھا حصہ امامِ وقت (یا ان کے نمائندوں) کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

  1. آدھا حصہ بنی ہاشم کے مستحقین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس، اہلِ سنت زکوٰۃ کو ہی غربت کے خاتمے کا بنیادی ذریعہ مانتے ہیں، جبکہ خمس صرف مخصوص مواقع پر فرض ہوتا ہے۔

اہلِ سنت اور شیعہ دونوں مکاتب فکر میں زکوٰۃ کی بنیادی حیثیت ایک جیسی ہے، مگر اس کی تفصیلات میں فقہی اختلاف پایا جاتا ہے۔

اہلِ سنت میں زکوٰۃ کا دائرہ وسیع ہے اور تقریباً تمام قسم کے مال پر فرض ہے، جبکہ شیعہ میں زکوٰۃ محدود ہے، اور باقی معاملات میں خمس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

شیعہ زکوٰۃ کو مرجعِ تقلید یا امام کے ذریعے تقسیم کرنا بہتر سمجھتے ہیں، جبکہ اہلِ سنت اسے فرد یا حکومت کے ذریعے ادا کر سکتے ہیں۔

مؤلفۃ القلوب کا زکوٰۃ میں حصہ شیعہ فقہ میں ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ اہلِ سنت اس کے قائل ہیں۔

یہ اختلافات فقہ کی تشریحات پر مبنی ہیں، مگر دونوں مکاتب فکر زکوٰۃ کو اسلامی معاشی نظام کا ایک لازمی جزو مانتے ہیں اور اسے مالی عبادت سمجھتے ہیں جو غربت کے خاتمے اور سماجی انصاف کے لیے ضروری ہے۔

جدید دور میں معاشی معاملات کی پیچیدگیوں کے باعث زکوٰۃ سے متعلق کئی نئے مسائل سامنے آئے ہیں، جن میں قرض، سرمایہ کاری، ڈیجیٹل کرنسی اور دیگر مالیاتی امور شامل ہیں۔

مقروض شخص اور زکوٰۃ

زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ صاحبِ نصاب مقروض نہ ہو۔ اگر کسی شخص کے پاس ایک خاص مقدار میں مال موجود ہے، مگر اس پر اتنا ہی قرض بھی ہے، تو اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔ تاہم، اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بھی اس کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد مال موجود ہو، تو اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔

ڈیجیٹل کرنسی اور زکوٰۃ

جدید دور میں کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل اثاثے بھی مال کے نئے ذرائع بن چکے ہیں۔ علما کا عمومی اتفاق ہے کہ اگر کسی کے پاس کرپٹو کرنسی یا کوئی اور ڈیجیٹل اثاثہ موجود ہے اور اس کی مالیت نصابِ زکوٰۃ تک پہنچ چکی ہے، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ وہ سال بھر تک اس کے پاس برقرار رہے۔

  1. کاروباری قرض اور زکوٰۃ

بہت سے تاجر اور کاروباری افراد اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ زکوٰۃ کے حساب میں یہ دیکھا جائے گا کہ آیا قرض کی ادائیگی کے بعد ان کے پاس نصاب کے برابر یا اس سے زائد مال باقی بچتا ہے یا نہیں۔ اگر بچتا ہے، تو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔

  1. سرمایہ کاری اور زکوٰۃ

جدید دور میں شیئر مارکیٹ اور دیگر سرمایہ کاری کے ذرائع عام ہو چکے ہیں۔ اگر کسی شخص نے سرمایہ کاری کر رکھی ہو اور وہ منافع کما رہا ہو، تو زکوٰۃ اس کی سرمایہ کاری کی مالیت اور منافع دونوں پر لاگو ہوگی، بشرطیکہ وہ نصاب تک پہنچے اور ایک سال تک برقرار رہے۔

جو افراد زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، ان کے لیے قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے:

"جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔" التوبہ: 34)

حدیث مبارکہ میں آیا ہے:

"جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی، قیامت کے دن اس کا مال آگ کی چادروں میں تبدیل ہو کر اس کے جسم پر لپیٹ دیا جائے گا۔" (بخاری و مسلم)

زکوٰۃ اسلامی معیشت کا ایک ایسا انقلابی نظام ہے جو دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور سماج کے نادار طبقات کو خود کفیل بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ محض ایک مالی عبادت نہیں بلکہ ایک ایسا فلاحی و اقتصادی اصول ہے جو معاشرتی ہم آہنگی، اخوت اور معاشی استحکام کا ضامن ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی زکوٰۃ کو مکمل طور پر نافذ کیا گیا، تو معاشرتی ناہمواریوں کا خاتمہ ہوا اور غربت کا دائرہ محدود ہوتا گیا۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کے عملی نفاذ نے ایک ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جہاں زکوٰۃ لینے والا تک نہ ملتا تھا۔ آج کے دور میں، جب کہ دنیا معاشی ناہمواریوں اور غربت کے شدید بحران سے دوچار ہے، زکوٰۃ کا نظام پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

جدید دور میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز، اسلامی بینکنگ سسٹمز اور رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ زکوٰۃ کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا نہ کیا جائے بلکہ اس کے حقیقی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک مستقل فلاحی نظام کے طور پر اپنایا جائے تاکہ اس کے ثمرات سماج کے ہر ضرورت مند فرد تک پہنچ سکیں۔

اگر زکوٰۃ کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے گی بلکہ ایک ایسا متوازن اور مستحکم معاشرہ تشکیل دے گی جہاں دولت چند ہاتھوں میں محدود ہونے کے بجائے ہر ضرورت مند تک پہنچ سکے۔ یہی زکوٰۃ کا اصل پیغام ہے اور یہی اسلامی معیشت کا بنیادی اصول۔