علی گڑھ: ویمنس کالج تہذیب و شائستگی اور علم و ادب کا گہوارہ ہے، اس ادارے نے ہمیشہ سے زبان و ادب کی آبیاری کی ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ باتیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ویمنس کالج کے پرنسپل پروفیسرمسعود انور علوی نے کالج کے آڈیٹوریم میں آل انڈیا مشاعرے میں استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی علمی، ادبی اور شعری روایات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شاعری اظہار کا ایک مؤثر ترین وسیلہ ہے۔ شاعری نے صرف دلوں کو دھڑکایا ہی نہیں ہے بلکہ اس نے دلوں کو گرمایا بھی ہے۔ معاشرتی سطح پر اس کی بڑی اہمیت ہے۔
پروفیسر علوی نے کہا کہ یہ مشاعرہ عام نوعیت کے مشاعروں سے الگ ہے، کیونکہ اس کے مقاصد الگ ہیں۔ ہم کالج میں مشاعرے کا اہتمام اس لیے بھی کرتے ہیں تاکہ ہماری طالبات اس دیرینہ روایت سے بھی واقف رہیں۔ مشاعروں کی روایت نے ہماری ادبی روایت کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مدعو شاعرہ ڈاکٹر زویا زیدی کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے گفتگو کی اور خراج عقیدت پیش کیا۔
اس سے قبل صدر مشاعرہ شمیم طارق، مہمان اعزازی اظہر عنایتی اور پرنسپل پروفیسرمسعود انور علوی نے مشاعرہ کا آغاز شمع روشن کرکے کیا۔
مشاعرے کا باقاعدہ آغاز اظہر عنایتی اور صبیحہ سنبل کی نعتیہ شاعری سے ہوا۔ اس موقع پر پیش کیے گئے منتخب اشعار نذر قارئین ہیں:
اپنی تصویر بناؤگے تو ہوگا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا
اظہر عنایتی
بہادری کے جو قصے سنا رہا ہے بہت
محاذ جنگ سے بھاگا ہوا سپاہی ہے
شمیم طارق
تمہارا شہر ہے تم جو کہو بجاہے وہ
ہمارا صرف خدا ہے مگر خدا ہے وہ
شہپر رسول
کچھ نہ تھا میرے پاس کھونے کو
تم ملے تو ڈر گیا ہوں میں
نعمان شوق
بات ہو تو یہ پوچھیں آسمان والے سے
اس زمین پر اتنی آگ کیوں برستی ہے
مہتاب حیدر نقوی
کبھی حال دل کہنا بے ساختہ
کبھی بس ایک ٹک اسے دیکھنا
سید سراج الدین اجملی
لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی میری
بس ایک ضد ہے کہ دریا یہیں پہ آئیگا
عالم خورشید
دل کا بس ایک تقاضہ ہے کہ ایسا کرلوں
جاگتی آنکھوں سے میں نیند کا سودا کرلوں
سرور ساجد
جان کی قیمت جب پانی پر لکھی گئی
پیاس ہماری پیشانی پر لکھی گئی
معید رشیدی
ہر ایک شخص کو دشمن اگر بناؤگے
مزاج پوچھنے والا کہاں سے لاؤگے
اطہر شکیل نگینوی
حقیقتیں تو مرے روز و شب کی ساتھی ہیں
میں روز و شب کی حقیقت بدلنا چاہتی ہوں
عذرا نقوی
ہم اپنی محبت کا تماشا نہیں کرتے
کرتے ہیں اگر کچھ تو دکھاوا نہیں کرتے
مشتاق صدف
ڈھونڈا اسے تو خود سے ملاقات ہوگئی
ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کبھی کبھی
راحت حسن
کہہ رہاہے صدیوں سے تاج کا حسیں چہرہ
فن اگر مکمل ہو تو بولتی ہیں تصویریں
صبیحہ سنبل
نبض حیات ڈوبی آیا عرق جبیں سے
کشتی کہیں پہ ڈوبی طوفاں اٹھا کہیں سے
عزیزہ رضوی
مشاعرے میں کالج کے اساتذہ، غیر تدریسی عملہ کے اراکین اور طالبات سمیت کثیر تعداد میں علی گڑھ کی علمی شخصیات نے شرکت کی۔
مشاعرے کی نظامت ڈاکٹر سرور ساجد اور ڈاکٹر شارق نے مشترکہ طور پر کی۔