نئی دہلی : آواز دی وائس
میرے خیال میں یہ عمر کا معاملہ ہے۔ ایک وقت انسان صرف مسائل پر متوجہ رہتا ہے جبکہ دوسرا مرحلہ ایسا ہوتا ہے جس میں آپ کو حل تلاش کرنا زیادہ بہتر طریقہ لگتا ہے ۔اب میں چاہتی ہوں کہ کمیونٹی کی ترقی کے بارے میں سوچ رہی ہوں ،یہ سوچ رہی ہوں کہ آخر آزادی کے 75سال گزر جانے کے باوجود ہم ایک کمیونٹی کے طور پر پیچھے کیوں ہیں
ان خیالات کا اظہار کشمیر کی نوجوان قلم کار شہلا رشید کنے کیا ۔انہوں نے آواز دی وائس کے ایڈیٹر انچیف عاطر خان کے ساتھ ایک انٹرویو میں ملک کی سیاست ،مسلمانوں کے مسائل سے تعلیم اور دیگر پہلووں پر کھل کر بات کی ۔ شہلا رشید کی کتاب ’’رول ماڈلز ‘‘ حال ہی بازار میں آئی ہے ،جس میں کامیاب مسلم شخصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک قلم کار کے روپ میں انہیں ہر کسی سے تعاون ملا ،جن سے امید نہیں تھی وہ بھی مددگار بنے ۔ ہر کسی نے اس آئیڈیا کو سراہا ۔نئی نسل نے اس کتاب کو پسند کیا ہے ،ملک بھر میں کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے اور اس پر بہت اچھی آرا سامنے آرہی ہیں۔
شہلا رشید نے ایک سوال کے جواب میں کہ مسلمانوں کی اب تک ترقی کیوں نہیں ہوئی، ابھی تک پسماندہ کیوں ہیں ؟ شہلا رشید نے کہا کہ مسلمانوں کوان ذہنی رکاوٹوں کو توڑنا ہو گا جو ہم نے کھڑی کررکھی ہیں اور دوم ہمیں کمیونٹی کی ترقی پر توجہ دینی ہو گی۔خاندانی ترقی اور ذاتی ترقی کو سیاست سے الگ رکھنا ہو گا۔اگر آپ ووٹ دینا چاہتے ہیں تو اس پارٹی کو ووٹ دیتے رہیں، لیکن ہمیں کسی مسیحا کا محتاج نہیں رہنا ہوگا ۔ایسا نہیں ہے کہ جب تک نہرو گاندھی خاندان کا کوئی وزیر اعظم نہیں بنتا ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ یہ درست نہیں ہے کہ ہماری ذاتی ترقی ممکن نہیں ہے، ہمیں اس تصورکو توڑنا ہوگا کیونکہ ہندوستان ایک آزاد ملک ہے۔ یہ ایک کھلا معاشرہ ہے جہاں ایک دوسرے کے لیے مواقع موجود ہیں۔ آپ اپنی ذاتی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو اپنی کمیونٹی پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں خاندان میں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہمیں اپنی آمدنی کی بنیاد پر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کیسے کرنی چاہیے۔کیا ہم اتنے بچے برداشت کر سکتے ہیں یا نہیں کیا ہم صرف ایک یا دو بچے برداشت کر سکتے ہیں؟کیا ہم انہیں بنیادی تعلیم دے سکتے ہیں یہ سب باتیں اس کتاب میں لکھی ہوئی ہیں؟
ایک اور سوال کے جواب میں شہلا رشید نے کہا کہ میں سمجھ نہیں سکتی کہ کیوں کہ ہم اپنے ہیروز کو خود قبول نہیں کرتے ہیں ، پہلے ہمیں اپنے ہیروز کو خود ماننا پڑے گا،جب ہم خود اپنے رول ماڈلز کی عزت کریں گے تب ہی دنیا ہماری عزت کرے گی۔میں آپ کو ایک مثال دینا چاہتی ہوں، جس دن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا انتقال ہوا اسی دن یعقوب میمن کا انتقال ہوا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ چونکہ ڈاکٹر کلام صدر جمہوریہ تھے، انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ الوداع کہا گیا ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری برادری سے کوئی نہیں نکلا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بت پرست تھے، یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے۔
انٹرویو کے دوران شہلا رشید اور آواز دی وائس کے ایڈیٹر انچیف عاطر خان
شہلا رشید نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ آپ سماجی زندگی میں امتیاز کا الزام عائد کرسکتے ہیں ،ایسا ہوتا ہے ،زندگی کے مختلف موڑ پراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا نظام میں نہیں ۔حکومت میں نہیں ۔یہ امتیاز سسٹم کا حصہ نہیں ۔اس کی مثال یہ ہے کہ اگر آپ یو پی ایس سی یا کسی بھی ادارے میں اپلائی کر تے ہیں،تو آپ کا انتخاب شفاف ہوتا ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال یو پی ایس سی اور آئی اے ایس میں غریب بچوں کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں ۔اگر آپ میڈیا آرگنائزیشن میں کتاب لکھ رہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں روکے گا،اگر آپ آج فیصلہ کرتے ہیں کہ میرا بچہ ہندوستان کا ایک اعلیٰ وکیل بننا چاہتا ہوں،تو اس کی کامیابی اس کی محنت اور صلاحیت پر ہوگا ،ہم پر ایسی کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔ جو ہماریح ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہ مسلمانوں میں غلط فہمیوں کا زور رہتا ہے،شہلا رشید نے نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل عطا حسنین سے جب میں اس کتاب کے لیے انٹرویو کیا ، تو میں بھی غلط فہمیوں کا ذکر سن کر حیران رہ گئی۔ کیونکہ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مدرسے کے ایک بچے نے نے ان سے سوال کیا کہ ۔۔۔ سر ہندوستانی فوج میں کوئی مسلمان نہیں، پھر آپ جنرل کیسے ہیں؟تو وہ بہت حیران ہو ئے۔اس بچے سے اس تاثر کے بارے میں دریافت کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ غلط فہمی کس حد تک کام کررہی ہے ۔اس کے پیچھے یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہےکہ فوج میں شراب پینی پڑتی ہے ،،حلال گوشت دستیاب نہیں ہوتا ہے۔
شہلا رشید نے ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی کے بارے میں کہا کہ آپ پڑوس کے پاکستان پر نظر ڈال لیں،کیا حالات ہیں،آپ دیکھیں ہر روز شیعہ مسجد کے باہر دھماکہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب اور اپنے انٹرویوز میں یہی کہنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے محفوظ ہے کیونکہ یہاں کوئی آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ اگر آپ شیعہ ہیں تو اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے، اگر آپ سنی ہیں تو آپ یہ نہیں کرسکتے،کوئی بھی فرقہ ہو، سب آزاد ہیں ۔اہل حدیث مسجد الگ ہے۔دوسرے فرقوں کی اپنی الگ مساجد اور الگ امام ہیں، دراصل ہندوستان سب کے لیے محفوظ ہے۔اگر آپ حقیقت پر نظر ڈالیں تو ہندوستان واحد ملک ہے جہاں مسلمان محفوظ رہتے ہیں۔محفوظ ہیں، چاہے آپ احمدیہ ہوں یا شیعہ یا آغا خانی یا کسی بھی فرقے سے ہوں۔ مگر آپ پاکستان کو دیکھیں جو ایک ایسا ملک ہے جو مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا۔وہاں احمدی کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے، فوج کا حصہ نہیں بن سکتے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی سوچ اور قیادت پر بات کرتے ہوئے جب شہلا رشید سے مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈراسد الدین اویسی کے بارے میں رائے دریافت کی توانہوں نے کہا کہ میں اویسی صاحب کو پسند کرتی ہوں اور ان کی تقریروں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں ،میرا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی تقاریر بہت اہم ہوتی ہیں ،میرا ماننا ہے کہ جو نوجوان قومی سیاست میں قدم رکھنا چاہتے ہیں انہیں اویسی صاحب سے سیکھنا چاہیے ۔ میں بھی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہوں، کیونکہ مسلم سیاست بہت مشکل ہے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمان کسی کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرتے مگراو یسی صاحب کو اس کے برعکس عام قبولیت حاصل ہے۔ انہیں میں پسند کرتی ہوں اور ہر کوئی پسند کرتا ہے ۔یہاں تک کہ ہندو بھی انہیں پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی تقاریر بہت دمدار ہوتی ہیں ۔ اویسی کے کچھ متنازعہ بیانات کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ کبھی کبھی زبان پھسل جاتی ہے ،غلطیاں سب سے ہوتی ہیں ہم سب انسان ہیں ،میرے خیال میں جب انہوں نے پارلیمنٹ میں جئے فلسطین کہا تو شاید وہ جئے ہند کہنا بھول گئے تھے ۔یہ ضرور دیکھیں کہ انہیں ووٹ مل رہے ہیں یا نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں صرف مسلمانوں سے ووٹ مل رہے ہیں، ہندوؤں سے بھی ووٹ مل رہے ہیں۔وہ کام کررہے ہیں ۔وہ ایک رول ماڈل بھی ہیں ۔
تفصیلی انٹرویو کو آپ یو ٹیوب پر دیکھ سکتےہیں