بیٹی اللہ کا انمول تحفہ

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 27-05-2024
بیٹی اللہ کا انمول تحفہ
بیٹی اللہ کا انمول تحفہ

 

زیبا نسیم : ممبئی 

بیٹی اللہ کا انمول تحفہ ہے جی ہاں ! یہی حقیقت ہے اور یہی اللہ کا پیغام ہے 

بیٹی… اللہ کی عطا ہے: ۔

مفہوم آیت: صرف اللہ ہی زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،جس کو چاہتاہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے۔ وہ چاہے تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے۔بے شک وہ ذات علم والی، قدرت والی ہے۔(سورۃ الشوریٰ، رقم الآیات:50،49)

اولاد اللہ پاک کی نعمت ہے، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ اصل اولاد کا نیک وصالح ہونا ہے ، صرف اپنی صنف کی وجہ سے بیٹے کو بیٹی پر کسی قسم کی برتری حاصل نہیں، اس لیئے یہ سوچ کسی طرح اسلامی نہیں کہ بیٹی بہتر اور بیٹا بہتر ین ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کو دیکھا جائے تواسلامی معاشرہ میں( جو حضور صلی ا للہ علیہ وسلم کے دور میں تھا ) بیٹی کو بڑی ترجیح دی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جس نے دو بچیوں کی جوان ہونے تک پرورش کی میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے انگلیوں کو ملایا۔“ ( صحیح مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جس کسی کی لڑکی ہو پھر وہ اسے نہ زندہ درگور کرے نہ اس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالٰی اسے جنت میں داخل کرے گا ۔“ ( سنن ابوداؤد )

عورت  اگر بیوی ہے

نبی كریم ﷺ جب دنیا میں رحمت للعالمین بن كر تشریف لائے تو عورت کو وہ مقام دیا کہ عورت  اگر بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے چنانچہ ارشادِ نبوی ہے

الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا المَرْأَةُ الصَّالِحَةُ.

( صحيح مسلم : 1467)

یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے

عورت اگر ماں ہے

 عورت اگر ماں ہے تو فرمایا اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے۔

 أنَّ جاهِمةَ جاءَ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ: يا رسولَ اللَّهِ ، أردتُ أن أغزوَ وقد جئتُ أستشيرُكَ ؟ فقالَ: هل لَكَ مِن أمٍّ ؟ قالَ: نعَم ، قالَ : فالزَمها فإنَّ الجنَّةَ تحتَ رِجلَيها

(صحيح النسائي: 3104)

حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ ( میرے والد محترم ) حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی  ﷺ  کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ۔۔۔ اے اللہ کے رسول ! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا  کہ تیری والدہ ہے ؟ اس نے کہا کہ  جی ہاں ! آپ نے فرمایا کہ اس کے پاس ہی رہ ( اور خدمت کر ) ۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے ۔

 عورت اگربہن یا بیٹی ہے

عورت اگربہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار هے  ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ کُنَّ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ اَوْ ثَلَاثُ أخَوَاتٍ، أوْ بِنْتَانِ، أو أخْتَانِِ اِتَّقَی اللّٰہَ فِیْھِنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ حَتّٰی یُبِنَّ أوْ یَمُتْنَ کُنَّ لَه حِجَابًا مِنَ النَّارِ

(مسند أحمد: 9043 بسند صحیح)

 جس کی تین بیٹیاں،یا تین بہنیں،یا دو بیٹیاں،یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ان کے ساتھ احسان کرے، یہاں تک کہ وہ اس سے جدا ہو جائیں یا فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی۔

ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا دفرمایا کہ جس شخص نے دو یاتین بیٹیوں یا دو یا تین بہنوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں یا مر گئیں تو میں اور وہ جنت میںایسے ہوں گے جس طرح دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔(صحیح ابن حبان)ایک دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی تو وہ اور میں اِس طرح جنت میں داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں اُنگلیوں کو ملاکربھی دکھایا۔(جامع ترمذی). ایک اور حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص بیٹیوں کی آزمائش میں مبتلا کیاگیا اور پھر اُس نے کوش دلی کے ساتھ اُن کی پرورش کی اور اُن پر احسان کیا تو یہ بیٹیاں جہنم کی آگ سے اُس کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی، اُس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اُس عورت کو تین کھجوریں دیں ، اُس نے ایک ایک کھجور تو اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دی اور تیسری خود کھانا چاہتی تھی، لیکن بیٹیوں نے وہ بھی مانگ لی ، اُس عورت نے اُس کھجور کے دو ٹکڑے کرکے وہ بھی آدھی آدھی اُن دونوں بیٹیوں کو دے دی، حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اِس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِس عورت کو جہنم سے آزاد کردیا گیا ہے اور اِس پر جنت واجب ہوچکی ہے۔(صحیح مسلم)