یو پی ایس سی: 34 واں رینک کے ساتھ ذوفشاں حق بن گئیں فخربہار

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 21-04-2024
یو پی ایس سی: 34 واں رینک کے ساتھ ذوفشاں حق بن گئیں فخربہار
یو پی ایس سی: 34 واں رینک کے ساتھ ذوفشاں حق بن گئیں فخربہار

 

محفوظ عالم : پٹنہ 
کہتے ہیں کامیابی ایک دن میں نہیں ملتی ہے لیکن ایک دن ضرور مل جاتی ہے اس کے لیے بڑا خواب دیکھنا ہوتا ہے۔ پٹنہ کی ذوفشاں حق نے مسلسل محنت کر اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل کر دکھایا ہے۔ یو پی ایس سی میں 34واں رینک لانے والی ذوفشاں حق نے بہار کا نام روشن کیا ہے لیکن ان کا آئی اے ایس بننے کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک سب سے بڑا سچ یہ ہیکہ کوئی بھی انسان جب کچھ کرنے کا مصمم ارادہ کرتا ہے تو وہ ہو کر رہتا ہے۔ صرف اپنی منزل کا احساس فرد کے ذمے ہے اور جب انسان کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کائنات کی ہر شے اس کے حصول کے لئے انسان کی مدد کرتی ہے۔ ذوفشاں حق کی اس کامیابی پر چاروں طرف خوشی و مسرت کا ماحول ہے۔ 
ذوفشاں حق نے آواز دی وائس سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کہاں تعلیم حاصل کی اور کس طرح سے انہوں نے آئی اے ایس کی اپنی تیاری مکمل کی اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلا ساتھ ہی انہوں نے مستقبل میں جو طالب علم یو پی ایس سی کی تیاری کر رہے ہیں ان کے لئے بھی کارآمد اور مفید مشورہ دیا۔ 
اسکول و کالج کی رہی ٹاپر
ذوفشاں حق نے بتایا کی میری تعلیم سکم میں ہوئی ہے، سکم میں میرے والد محفوظ الحق ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل تھے، میری پیدائش بھی سکم میں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکم میں ہی میں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ 10ویں اور 12ویں کا امتحان سی بی ایس سی بورڈ سکم سے مکمل کیا اور اسٹیٹ ٹاپر رہی۔ انہوں نے کہا گریجویشن تک میں سکم میں رہی، سکم سے ہی میں نے بی ٹیک مکمل کیا۔ واضح رہے کہ بی ٹیک میں بھی ذوفشاں حق نے ٹاپ کیا تھا۔ انہوں نے کہا اس کے بعد میں نے ایم ٹیک آئی آئی ٹی پٹنہ سے کیا اور گولڈ میڈلسٹ رہی۔ اسی درمیان مجھے اسکالرشپ ملی تھی جس کے بدولت مجھے جرمنی میں ریسرچ کرنے کا موقع ملا اور قریب ساتھ مہینہ میں نے جرمنی میں گزارا۔ ذوفشاں کے مطابق یہی میرا تعلیمی سفر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اس پورے سفر میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس کے بعد میں نے سول سروسیز کی تیاری شروع کی۔ اس بار میرا یہ چوتھا اٹیمپٹ ہے۔ گزشتہ اٹیمپٹ میں میرا انڈین ریونیو سروس میں انتخاب ہوا تھا۔ ابھی اس میں ہی میری ٹریننگ چل رہی ہے ایک آئی آر ایس اوفیسر کی حیثیت سے۔ گزشتہ اٹیمپٹ میں میرا رینک 193 تھا اور اس بار میرا رینک 34 ہے۔ 
ٹاپ رینک لانے پر ذوفشاں کے تاثرات
ذوفشاں حق نے اپنی کامیابی کے سلسلے میں کہا کہ قدرتی طور پر اتنے دنوں سے جو محنت چل رہی تھی۔ اس کا پھل جب اس طرح سے ہمیں ملا تو کافی خوشی و مسرت ہوئی، ظاہر ہے وہ خوشیاں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ واقعی کافی اچھا لگا اور صرف مجھے نہیں بلکہ میرے والدین اور گھر کے سبھی افراد و رشتہ دار بیحد خوش ہیں۔ جنہوں نے مجھے نزدیک سے دیکھا ہے انہیں بھی لگا کہ ہاں اتنے دنوں سے محنت کر رہی تھی تو آخر کار جو ٹارگٹ تھا وہ حاصل کیا اور اب میں بہت ہی زیادہ پر جوش ہوں کی کل کو اب موقع ملے گا کہ ایک آئی اے ایس اوفیسر کی حیثیت سے میں اپنی خدمات انجام دو، اور اس میں بھی میں مؤثر تبدیلی لاسکوں گی۔ اب یہی محنت رہے گی کہ سماج کے بہتر اور مثبت خدمات کو لیکر مسلسل کام کیا جائے۔
اپنی کامیابی پر کیا شکریہ کا اظہار
ذوفشاں کے مطابق وہ کسی ایک کو اپنی کامیابی کا کریڈٹ نہیں دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے حساب سے کریڈٹ کسی ایک انسان کو دینا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جب بھی اس طرح کی کامیابی ہوتی ہے تو ہر کوئی کہیں نہ کہیں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ چاہے وہ گھر کے افراد ہوں، والدین، بہن یا پھر اسکول کے اساتذہ اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ٹیچر و دوست احباب جو کسی نہ کسی سطح پر سول سروسیز کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یعنی اس طرح کی کامیابی میں  ہر پائدان پہ کوئی نہ کوئی ہوتا ہے جو آپ کو کسی نہ کسی طرح سے مدد کرتا ہے۔ ذوفشاں نے کہا کی میں ان سبھی لوگوں کا دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے اس سفر میں کسی نہ کسی طرح سے میری مدد کی ہے۔
حج بھون کوچنگ
ذوفشاں حق کا کہنا ہے کہ حج بھون سے بھی ان کو کافی مدد ملی۔ حج بھون میں رہائشی سہولت مجھے فراہم کرائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حج بھون کا ماحول کافی اچھا ہے اور وہاں پڑھانے والے ٹیچر بھی کافی اچھے ہیں۔ حج بھون کوچنگ میں جو ٹیچر پڑھانے آتے تھے ان سے یو پی ایس سی مینس کے امتحان کی تیاری میں کافی مدد ملی۔ بلاشبہ میری کامیابی میں حج بھون کا بھی کافی اہم رول رہا ہے۔ حج بھون میں مجھے کافی سہولت حاصل تھی اور وہاں رہ کر میں نے یو پی ایس سی مینس کی تیاری مکمل کی۔  
طلباء کے لئے مشورہ
ذوفشاں حق کا کہنا ہے کہ سبھی طالب علم کے لئے ایک طرح کا ہی مشورہ ہے کہ اگر آپ محنت کریں گے اور محنت صحیح سمت میں کریں گے تا کامیابی یقیناً ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس تعلق سے کچھ وقت لگا کر آپ کو پتہ کرنا ہوگا کہ آپ کو دراصل پڑھنا کیا ہے۔ اس کے لئے سلیبس پر نظر رکھیں اور بہت منصوبہ بند طریقہ سے اپنی تیاری کا لائحہ عمل مرتب کریں۔ تو پھر یہ مقابلہ جاتی امتحان بھی کوئی اور امتحان کے جیسا ہی آپ کو معلوم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یو پی ایس سی نکالنا ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن اتنا بھی مشکل نہیں کہ اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکے۔ اگر آپ مسلسل ایک یا دو سال لگے رہیں گے تو اس امتحان میں آپ کو یقیناً کامیابی ملے گی۔ اس کے لیے صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ گھر کے افراد کا بھی سپورٹ ہونا چاہئے۔ گھر کا سپورٹ اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کافی اہم رول ادا کرتا ہے۔ ذوفشاں کے مطابق اگر یہ سب چیزیں مل جاتی ہیں تو پھر کوئی بھی ہو چاہے لڑکا ہو یا لڑکی وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔
یو پی ایس سی کے لئے ذوفشاں کی جدوجہد
ذوفشاں حق کے مطابق شروع دن سے ہی یو پی ایس سی میں جانا میرا خواب تھا لیکن باقاعدہ میں نے اپنی تیاری 2019 کے بعد سے شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکول کے دنوں سے ہی میرا مقصد سول سروسیز کی تیاری تھا۔  لیکن ایم ٹیک کرنے کے بعد میں نے باقاعدہ اس کی تیاری شروع کی۔ 2020 میں بھی میں نے یو پی ایس سی کا امتحان دیا تھا لیکن اس میں ناکام رہی۔ 2021 میں یو پی ایس سی کے مینس میں میرا سلیکشن ہوا اور میں انٹرویو تک جانے میں کامیاب رہی۔ 2022 میں آخر کار میں نے اس گول کو حاصل کیا اور یو پی ایس سی کے امتحان میں میرا رینک 193 تھا اور آئی آر ایس کے لئے میرا انتخاب ہوا۔ پھر میں نے چوتھا اٹیمپٹ لیا اور 2023 میں یو پی ایس سی کے امتحان میں میرا رینک 34 آیا اور آخر کار میرا سلیکشن آئی اے ایس کے لئے ہو گیا۔ اسی درمیان میرا بی پی ایس سی میں بھی سلیکشن ہوا تھا۔ 
یو پی ایس سی کے لئے کتنا گھنٹہ پڑھنا چاہئے 
ذوفشاں حق کے مطابق میرا ماننا ہے کہ پہلے تو آپ  ٹائم لمٹ لگا کر پڑھ ہی نہیں سکتے ہیں کہ میں نے 10 گھنٹہ پڑھا تو میرا یو پی ایس سی کلیر ہو جائے گا، کیونکہ ہر طالب علم کا حکمت عملی الگ ہوتا ہے، ہو سکتا ہے جو چیز مجھے ایک گھنٹے میں سمجھ میں آئے وہ کسی کو صرف 15 منٹ میں ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ میں نے 10 گھنٹہ پڑھا ہے اس نے سات گھنٹہ پڑھا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ آپ کو اپنا ٹارگٹ بنانا ہے جیسے مجھے اس سبجیکٹ کے چار چیپٹر کمپلیٹ کرنے ہیں تو اگر آپ کو لگتا ہے کی آپ سے دو دن میں یہ کام مکمل ہو جائے گا تو آپ یہ دیکھیے کہ جو ٹارگٹ سیٹ کیا ہے وہ پورا ہو پا رہا ہے یا نہیں، اگر ایک بار منصوبہ بنا لیا تو ہر حال میں اسے دو دن میں پورا کرنا ہے پھر چار دن اسی کام کو نہیں کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے حساب سے کوئی بھی طالب علم جو پڑھائی میں ایمانداری سے لگا رہتا ہے اس کو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ وہ کہاں مضبوط ہے اور کہاں کمزور۔ ایک بار آپ کو وہ سمجھ میں آگیا تو آپ اس حساب سے ہی اپنا رو ٹین بناتے ہیں۔ تو ہر طالب علم کو اپنے حساب سے اس امتحان کو دیکھنا چاہئے اور اسی کے مطابق محنت کرنا چاہئے۔ 
سول سروسیز کی تیاری ایسے شروع کریں
ذوفشاں حق کا کہنا ہے کہ جو بھی طالب علم سول سروسیز کی تیاری کر رہے ہیں ان کو میں یہ کہنا چاہوں گی کہ پہلے اچھے سے یو پی ایس سی کا سلیبس دیکھ لیں کیونکہ سلیبس نہیں دیکھتے ہیں تو اکثر کنفیوژن ہوتا ہے کہ پڑھائی کا آغاز کیسے کریں۔ وہ تمام جانکاریاں یو پی ایس سی کے ویب سائٹ پر موجود ہے، اگر سلیبس کو اچھے سے دیکھ لیا جائے تو یہ آسانی ہوتی ہے کہ ہمیں پڑھنا کیا ہے۔ اکثر طلباء سلیبس دیکھے بغیر اپنی تیاری شروع کر دیتے ہیں جو میرے خیال سے اچھا نہیں ہے۔ جب سلیبس دیکھ لیتے ہیں تو آپ کوئی بھی کتاب یا کوئی بھی نوٹس پڑھیں گے تو آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ ہاں یہ اہم ہے کیونکہ یہ سلیبس میں موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ گزشتہ سالوں کے سوالات اور اس کے پیٹرن دیکھ لیں تو اس سے کافی مدد ملتی ہے۔ تو اس حساب سے ہی آپ کو تیاری کرنا ہے اور بہت زیادہ سورسز کے پیچھے نہیں بھاگنا ہے کہ میں 10 طرح کی کتابیں پڑھ لوں یا فلاں کتاب سے یہ کنٹینٹ لے لوں۔ کیونکہ وقت آپ کے پاس کافی کم رہتا ہے، آپ کو ریوائز کرنا زیادہ ضروری ہے، ایک ہی چیز کو آپ چار بار پڑھیں گے تو ہی آپ مینس کے امتحان میں لکھ سکیں گے۔ یہ میرا مشورہ ہے ان لوگوں کے لئے جو مستقبل میں یو پی ایس سی کی تیاری کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں یا وہ تیاری کر رہے ہیں۔ شروعات میں ہی اچھی طرح سے سلیبس دیکھ کر اپنا منصوبہ بنائیں اور جن کتابوں کو ایک بار انتخاب کر لیں تو اس کو ہی پڑھیں۔  
گھر کے ماحول نے بنایا آئی اے ایس
ذوفشاں نے کہا کہ شروع دن سے ہی میری تعلیم کافی اچھے ماحول میں ہوئی ہے اور گھر کے ہر افراد نے مجھے کافی سپورٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد سکم کے سرکاری اسکول میں، ایک اسکول کے پرنسپل رہے ہیں، ماں گھر میں رہتی ہیں۔ والد صاحب رٹائرڈ کر گئیں ہیں تو وہ واپس پٹنہ چلے آئے ہیں۔ میری ایک بہن ہے جو ڈینٹسٹ ڈاکٹر ہیں وہ دھنباد میں اپنے خاوند کے ساتھ رہتی ہیں، ان کے خاوند بھی ڈاکٹر ہیں۔ میں گھر میں سب سے چھوٹی ہوں۔ ہم لوگ دو بہنیں ہیں۔ گھر کا ماحول شروع دن سے ہی بہترین تعلیم و تربیت والا رہا اس کا اثر ہم لوگوں پر پڑنا لازمی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل ہم نے محنت کی اور یہاں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔