خواتین کے خلاف تشدد: اسباب، اثرات، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 03-12-2024
خواتین کے خلاف تشدد: اسباب، اثرات، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل
خواتین کے خلاف تشدد: اسباب، اثرات، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی

خواتین کے خلاف تشدد آج کے دور کا ایک سنگین مسئلہ ہے، جو دنیا بھر میں لاکھوں خواتین کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف انفرادی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی تباہ کن اثرات چھوڑتا ہے۔ ہر عورت جو محبت، قربانی اور صبر کی مجسم تصویر ہے، اس کے ساتھ ظلم و زیادتی صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے خاندان اور معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کو اکثر اپنی زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ گھریلو تشدد ہو، جنسی ہراسانی، یا معاشرتی دباؤ۔ ایسے حالات میں، اقوامِ متحدہ نے خواتین کے تحفظ اور ان کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ 25 نومبر کو "خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن" منانے کا مقصد دنیا بھر میں شعور اجاگر کرنا اور خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن کی اہمیت

اقوامِ متحدہ نے 1999 میں 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس دن کا مقصد ان تمام خواتین کے مسائل کو دنیا کے سامنے لانا ہے جو ظلم و زیادتی کا شکار ہیں۔ تشدد کے خلاف قوانین کو سخت بنانے، ان پر عملدرآمد کروانے، اور خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے یہ دن نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

تشدد کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر کئی تحریکیں اور مہمات شروع کی گئی ہیں، جن میں "می ٹو مہم" اور "سفید ربن مہم" جیسی مہمات شامل ہیں۔ ان تحریکوں نے نہ صرف خواتین کی آواز کو تقویت دی بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں سماجی اور قانونی اصلاحات کا باعث بھی بنیں۔

خواتین کے خلاف تشدد کی اقسام:

خواتین کو زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف اقسام کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی جسمانی، ذہنی اور سماجی زندگی پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:

گھریلو تشدد

گھر کے اندر خواتین کو جسمانی یا ذہنی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تشدد شوہر، والدین یا دیگر قریبی رشتہ داروں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

جسمانی اور جنسی تشدد

خواتین کو جسمانی نقصان پہنچانا، ان کے ساتھ زیادتی کرنا یا انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانا اس زمرے میں آتا ہے، جو ان کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔

نفسیاتی تشدد

خواتین کو دھمکیاں دینا، ان پر الزامات لگانا یا ان کے جذبات کو مجروح کرنا نفسیاتی تشدد کہلاتا ہے۔ یہ عمل خواتین کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

معاشی استحصال

خواتین کو مالی طور پر خودمختار ہونے سے روکنا، ان کی کمائی پر قبضہ کرنا یا انہیں روزگار سے محروم رکھنا معاشی استحصال کی مثالیں ہیں۔

تعلیمی محرومی

کئی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں دیا جاتا یا انہیں کم عمری میں اسکول چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

معاشرتی ناانصافی

خواتین کو بنیادی سماجی حقوق، روزگار کے مواقع اور مساوی سلوک سے محروم رکھا جاتا ہے، جو ان کے معاشرتی کردار کو محدود کرتا ہے۔

روایتی اور سماجی تشدد

کچھ ثقافتوں میں عورتوں کے خلاف تشدد کو روایات اور رسم و رواج کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جیسے کم عمری کی شادی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، یا جہیز کے لیے تشدد۔

ڈیجیٹل تشدد

آج کے ڈیجیٹل دور میں خواتین کے خلاف تشدد کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، جس میں ان کی نجی معلومات کو غلط استعمال کرنا، آن لائن ہراسانی، یا ان کی تصاویر اور ویڈیوز کا غیر قانونی استعمال شامل ہے۔

یہ تمام اقسام خواتین کے لیے جسمانی، ذہنی اور جذباتی اذیت کا باعث بنتی ہیں۔ ان مسائل کا حل نکالنا اور خواتین کو تحفظ و حقوق فراہم کرنا ایک مہذب معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

مرکزی موضوع:

تشدد کی ان تمام اقسام پر تفصیلی گفتگو ایک ہی مضمون میں کرنا ممکن نہیں، لہٰذا مضمون کا مرکزی موضوع گھریلو تشدد ہے۔ گھریلو تشدد کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، لیکن یہاں اس تشدد کی بات کی جا رہی ہے جو بیوی کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔یہ تشدد کی وہ قسم ہے جو سب سے زیادہ عام ہونے کے باوجود اکثر پوشیدہ رہتی ہے۔ نچلے طبقے میں یہ مسئلہ اکثر منظر عام پر آ جاتا ہے، لیکن شرفاء کے گھروں میں خواتین اس درد کو سہنے پر مجبور ہوتی ہیں اور یہ دنیا کے سامنے ظاہر نہیں ہو پاتا۔ اس قسم کے تشدد کرنے والے مجرم اکثر اپنی پوری زندگی بغیر کسی سزا کے گزارتے ہیں اور شرافت کے لبادے میں معاشرے میں عزت دار سمجھے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے گھروں کے بند دروازوں کے پیچھے کیا ہو رہا ہے اور وہاں کی خواتین کن مشکلات سے دوچار ہیں۔

گھریلو تشدد نہ صرف ایک سماجی مسئلہ ہے بلکہ اخلاقی اور انسانی قدروں کی پامالی کی ایک سنگین مثال بھی ہے۔ یہ وہ ناسور ہے جو خاندان کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرتا ہے اور نسلوں تک اپنے منفی اثرات چھوڑتا ہے۔ اس معاملے کو صرف سماجی یا قانونی پہلو سے دیکھنا کافی نہیں، بلکہ اسے مذہبی اور اخلاقی زاویے سے بھی پرکھنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب اسلام جیسے مذہب نے اس مسئلے پر واضح رہنمائی فراہم کی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات اس اہم مسئلے کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔

 

اسلامک جایزہ:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی حقوق کی پاسداری اور انصاف پر زور دیتا ہے۔ گھریلو تشدد کے حوالے سے اسلامی تعلیمات واضح ہیں، جو ہر قسم کے ظلم و زیادتی کی مذمت کرتی ہیں اور خواتین کو عزت و احترام دینے کی تاکید کرتی ہیں۔ گھریلو تشدد کے مسئلے کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ دین اسلام کس طرح معاشرتی اصلاح اور خاندان کے استحکام پر زور دیتا ہے۔ آئیے اس موضوع پر اسلامی تعلیمات کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں۔

اسلام میں خواتین کو بلند مقام دیا گیا ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن اور حدیث میں خواتین کے تحفظ اور ان کی عزت و حرمت کی مکمل وضاحت موجود ہے۔

اور تمہاری عورتوں کے حق میں تمہارا کیا رویہ ہے، ان کے بارے میں تم کیا کرتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا حساب لے گا

 (سورة النساء: 1)

 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اور اس میں عورتوں کی حفاظت، عزت، اور حقوق کی حفاظت کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔

اسلام میں خواتین کے حقوق اور ان کے احترام کے حوالے سے بے شمار آیات اور احادیث موجود ہیں، جو ان کے مقام اور عزت کی واضح دلیل فراہم کرتی ہیں۔ تاہم، چونکہ ان حوالوں کا ذکر پہلے بھی کئی مضامین میں کیا جا چکا ہے، اس لیے یہاں ان کو دہرانے کے بجائے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عملی واقعہ کا ذکر کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ واقعہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر پیش کرتا ہیں بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے حقوق کی ادائیگی کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے۔

اسلام میں خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے، اور اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں کئی عبرت آموز واقعات ملتے ہیں۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ایک نمایاں مثال ہے جو خواتین کے ساتھ برتاؤ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

شیخ طوسی (رحمت اللہ علیہ) نے اپنی کتاب "الامالی" میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا ہے، خاص طور پر ان کی وفات اور اس وقت کے حالات کے بارے میں.

جب نبی اکرم ﷺ کو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر ملی، تو آپ ﷺ بہت غمگین ہوئے اور ان کے جنازے میں ننگے پاؤں شرکت کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ، آپ نے نعلین کیوں نہیں پہنی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد کے جنازے میں شرکت کے لیے اللہ نے ستر ہزار فرشتے آسمان سے زمین پر بھیجے ہیں، اور میں نہیں چاہتا کہ میرا پاؤں کسی فرشتے کے قدم پر پڑے۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ عظیم فضیلت ان کے عمل کی وجہ سے ملی، کیونکہ وہ ہر وقت سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔ جنازے کے بعد جب سعد کی تدفین مکمل ہوئی تو ان کی والدہ نے قبر پر ہاتھ رکھ کر کہا، "بیٹا، تمہیں جنت مبارک ہو۔" یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے ان کی والدہ سے پوچھا، "تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ تمہارا بیٹا جنت میں ہے؟" حضرت سعد کی والدہ نے جواب دیا، "میرا بیٹا صحابی رسول تھا، اور جس کا جنازہ نبی ﷺ خود پڑھیں، وہ جنت ہی میں جائے گا۔"

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، "تمہارا بیٹا اس وقت فشارِ قبر میں مبتلا ہے، کیونکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتا تھا۔

یہ واقعہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے کہ خواتین کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنا اور ان کے حقوق کو نظر انداز کرنا دنیا اور آخرت میں کیسے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے، چاہے انسان کے دیگر اعمال کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں۔

اسلام کی تعلیمات میں اخلاق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انسان کے بہترین اخلاق ہیں، چاہے یہ اخلاق بیوی کے ساتھ ہوں، اولاد کے ساتھ، والدین کے ساتھ، دوستوں اور احباب کے ساتھ یا حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ بھی۔ اخلاق وہ پیمانہ ہے جس پر ایک مسلمان کی حقیقی شخصیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

تشددِ نسواں اور اخلاق کی اہمیت:

تشددِ نسواں نہ صرف اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اسلام عورت کو عزت و وقار عطا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے ظلم یا بدسلوکی کو سختی سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"

(سورہ النساء: 19)

"اور ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو۔"

اخلاق کا تقاضا ہے کہ عورت کو محبت، احترام، اور انصاف دیا جائے، چاہے وہ بیوی ہو، بیٹی ہو، بہن ہو یا ماں۔ تشدد کے بجائے صبر، حکمت اور رحمت کے رویے اپنانا ہی ایک مہذب اور اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔ تشددِ نسواں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اخلاق کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں اور ظلم و زیادتی کے بجائے عدل و محبت کے اصولوں پر عمل کریں۔

نتیجہ:

خواتین کے خلاف تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا خاتمہ معاشرتی، قانونی، اور مذہبی بنیادوں پر کام کیے بغیر ممکن نہیں۔ اسلامی تعلیمات اس مسئلے کا حل پیش کرتی ہیں اور ہر فرد کو خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کی عزت و وقار کے لیے کردار ادا کرنے کی تاکید کرتی ہیں۔

اسلام نے خواتین کو وہ حقوق دیے ہیں جن کی دنیا بھر میں کوئی نظیر نہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان تعلیمات کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں ہر عورت عزت اور تحفظ کے ساتھ زندگی گزار سکے۔