ورلڈ حجاب ڈے: حجاب کا عالمی شعور اور قبولیت

Story by  ڈاکٹر شبانہ رضوی | Posted by  [email protected] | Date 03-02-2025
ورلڈ حجاب ڈے: حجاب کا عالمی شعور اور قبولیت
ورلڈ حجاب ڈے: حجاب کا عالمی شعور اور قبولیت

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی

حجاب ، پردے کی ایک شکل ،جس نے پچھلی چند دہائیوں کے دوران تیزی کے ساتھ  مسلم معاشرے میں مذہبی  علامت کا درجہ حاصل کیا ، مذہبی شناخت کے بحران کے سبب  مشرق سے مغرب تک مقبولیت کی تمام حدوں کو پار کرگیا تو پہلے فیشن بنا اور پھر ایک بحث یا تنازعہ ۔ کسی ملک میں ممنوع ہوا تو میں سماجی طور پر نشانہ بنا ۔ اگر کسی نے اس کی حمایت کی تو کوئی مخالفت میں بھی سامنے آیا۔ کسی نے اس کو غلامی کی علامت مانا تو کسی نے وقار کی ۔مذہبی برادری نے اس کو  نہ صرف ایک مذہبی فریضہ مانا  بلکہ شناخت، وقار اور آزادی کی علامت بھی ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی معاشروں میں یہ ایک بحث طلب مسئلہ بنا دیا گیا ہے، اور باحجاب خواتین کو اکثر تعصب، نفرت، اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طوفان کے دوران امریکہ میں  بنگلہ دیشی نژاد نظمہ خان نے ورلڈ حجاب ڈے کی بنیاد رکھی تاکہ اس غلط فہمی کو دور کیا جا سکے کہ حجاب کسی زبردستی کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ ایک شعوری اور فطری انتخاب ہے، جو عورت کی عزت اور آزادی کو مزید نکھارتا ہے۔

ورلڈ حجاب ڈے: پس منظر، اہمیت اور اثرات

ورلڈ حجاب ڈے کا قیام 2013 میں بنگلہ دیشی نژاد نیویارکر نظمہ خان کے ذریعے عمل میں آیا، جس کا مقصد دنیا بھر میں مسلم خواتین کے حجاب کے انتخاب کو تسلیم کرنا اور اس حوالے سے موجود غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔ نظمہ خان نے اپنی زندگی میں حجاب کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کیا، جس نے انہیں اس عالمی تحریک کی بنیاد رکھنے پر مجبور کیا۔ یہ دن ہر سال یکم فروری کو منایا جاتا ہے اور 150 سے زائد ممالک میں اسے پذیرائی حاصل ہے۔ 2017 میں نیویارک اسٹیٹ نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کیا، جبکہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، اور فلپائن کی پارلیمان میں بھی اسے سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ 2018 میں اسے ایک غیر منافع بخش تنظیم کا درجہ دیا گیا، جس کا مقصد مسلم خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے آگاہی، تعلیم، اور بااختیار بنانے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔ 2021 میں نظمہ خان نے "انٹرنیشنل مسلم ہسٹری منتھ" کی بنیاد رکھی، جسے نیویارک سینیٹ نے تسلیم کیا۔ اس تحریک کو عالمی میڈیا اور سرکردہ سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہی ہے، جن میں تھریسا مے، نکولا اسٹرجن، اور رجب طیب اردگان شامل ہیں، جبکہ Meta (فیس بک اور انسٹاگرام) نے بھی اس کی تشہیر میں کردار ادا کیا۔ آج ورلڈ حجاب ڈے خواتین کی مذہبی آزادی، خودمختاری، اور ثقافتی ہم آہنگی کی علامت بن چکا ہے۔

دنیا میں دو طرح کی سوچ رکھنے والی خواتین ہیں ایک وہ جو حجاب کو اپنی پہچان اور وقار سمجھتی ہیں، جیسے نازمہ خان، اور دوسری وہ جو آزادی کے نام پر بے حجابی کو فروغ دیتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اخلاقیات اور سماجی اصولوں کی روشنی میں کون سا طرزِ عمل زیادہ باوقار اور معاشرت پر مثبت اثر ڈالنے والا ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں حجاب

حجاب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی "پردہ، رکاوٹ یا اوٹ" کے ہیں۔ اسلام میں حجاب کا مطلب صرف ایک مخصوص لباس پہننا نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ زندگی اور پاکیزگی کا اصول ہے جو نہ صرف عورت بلکہ مرد کے لیے بھی لازم ہے۔ حجاب میں لباس، نظریں، رویہ، گفتار اور کردار سب شامل ہوتے ہیں۔

اسلام میں حجاب کا تصور سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

"مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے خوب باخبر ہے۔"

(سورۃ النور 24:30)

یہاں یہ واضح کیا گیا کہ مردوں کے لیے بھی حجاب ضروری ہے، جو نظروں، افعال اور رویے کی پاکیزگی پر مشتمل ہے۔

"اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔"

(سورۃ النور 24:31)

"اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں (جلباب) اپنے اوپر ڈال لیا کریں، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔"

(سورۃ الاحزاب 33:59)

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ عورت کو اپنی زینت اور جسمانی ساخت کو چھپانے کے لیے مناسب لباس پہننا ضروری ہے تاکہ وہ غیر محرموں کی نظروں سے محفوظ رہے۔

بحث کیوں ہے ؟

یہاں میرا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ اسلام میں حجاب واجب ہے یا قرآن میں کہاں کہاں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ چند آیات اور احادیث کا حوالہ محض وضاحت کے لیے دیا گیا ہے۔ اصل مدعا حجاب کی پابندی پر بحث کرنا نہیں، بلکہ اس کی مخالفت پر غور کرنا ہےجو نہ صرف فرانس، ہندوستان بلکہ کئی دیگر ممالک میں ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا حجاب واقعی کوئی منفی چیز ہے؟ آخر معاشرے اور دیگر مذاہب کو اس سے کیا تکلیف ہے؟

آج ایک طبقہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ حجاب جبر ہے، زیادتی ہے، اور ان کی آزادی میں رکاوٹ ہے، جبکہ  دوسرا طبقہ دعوی کرتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت کے ساتھ باہر نکلنا، تعلیم حاصل کرنا اور اعلیٰ مقام تک پہنچنا—اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ بلکہ اسلام حجاب کے ذریعے عورت کی عزت اور وقار کی ضمانت دیتا ہے، تاکہ وہ ہر طرح کے استحصال سے محفوظ رہے اور معاشرے میں باوقار انداز میں زندگی بسر کرے۔

حجاب: دوہرا معیار اور حقیقت

حجاب نواز مانتے ہیں کہ مغربی دنیا میں آزادی کے نام پر بےحیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے، لیکن جب یہی آزادی ایک مسلمان عورت حجاب کی شکل میں اختیار کرتی ہے تو اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر ہم مغرب کی بات چھوڑیں، اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو صورتحال زیادہ افسوسناک نظر آتی ہے۔

آج اگر ہم اسٹیج پر ناری مکتی اور عورت کی آزادی کے نعرے بلند کرتے ہیں  مگر پھر ایک عورت کے سر سے زبردستی حجاب کھینچ لیتے ہیں، خیر غیر مسلم‌ معاشرے سے کیا شکوہ  کریں زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ جو مسلمان خود کو صاحبِ ایمان سمجھتے ہیں وہی قرآن و شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے فخر سے کہتے ہیں: "ہم حجاب مخالف ہیں!"

حجاب کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے کہتے ہیں کہ  کیسا دوہرا معیار ہے کہ عریانی کو آزادی سمجھا جاتا ہے، ترقی کا نشان مانا جاتا ہے، مگر حجاب پر قدغن لگائی جاتی ہے؟ اگر کوئی لڑکی اپنی مرضی سے حجاب پہن کر کالج یا دفتر جاتی ہے تو وہ کسی پر حجاب  اپنانے کی زبردستی تو نہیں کر رہی، پھر اعتراض کیوں؟ جس معاشرے میں برہنہ رہنے کی آزادی ہے، وہاں حجاب پہننے کی آزادی کیوں نہیں؟

ایک طبقہ کی نظر میں  حجاب وہ علامت ہے جو اسلام کو نمایاں کرتا ہے، اس کی پہچان بناتا ہے،اس کا ثبوت وہ غیر مسلم مغربی خواتین ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور حجاب کو اپنایا، جیسے:

لورین بوث (Lauren Booth) – برطانوی صحافی اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی، جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد حجاب اپنالیا۔

2. کیتھی جینسن (Kathy Jansen) – ایک مشہور امریکی مصنفہ، جو اسلام قبول کرنے کے بعد باحجاب زندگی گزار رہی ہیں۔

3. ماریا ایڈمز (Maria Adams) – ایک جرمن ماڈل، جو اسلام قبول کرنے کے بعد مکمل حجاب میں آ گئیں۔

4. کرسٹیان بیکر (Kristiane Backer) – سابق MTVیورپ کی میزبان، جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد حجاب کو اختیار کیا۔

مغربی میڈیا کا دوہرا معیار یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم عورت اسکارف پہنے تو اسے "فیمنسٹ" اور بااختیار قرار دیا جاتا ہے، لیکن اگر ایک مسلم عورت حجاب اختیار کرے تو اسے "مجبور" کہا جاتا ہے۔

ورلڈ حجاب ڈے یہ موقع دیتا ہے کہ حجاب نواز دنیا میں یہ پیغام دیں کہ حجاب  قید نہیں، بلکہ آزادی کی علامت ہے ۔