نیو یارک: اپاکستان میں سیلاب نے تباہی برپا کر رکھی ہے ااور افغانستان میں قحط نے دم نکال دیا ہے۔ دونوں ممالک ہی قدرتی آفتوں سے پریشان ہیں ۔ دنیا کی نظریں دونوں ممالک پر ہیں ۔عالمی برادری اپنے طور پر مدد کے لیے تیار ہے۔ قوام متحدہ کے سربراہ برائے انسانی امور مارٹن گریفتھس نے کہا ہے کہ افغانستان کو غربت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا سامنا ہے جس میں 60 لاکھ افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہوں نےعطیہ دہندگان پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی معاشی ترقی کے لیے مالی امداد بحال کریں اور افغانوں کو موسم سرما گزارنے میں مدد کے لیے فوری طور پر 77 کروڑ ڈالر فراہم کریں۔
مارٹن گریفتھس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان کو متعدد انسانی، مالی، معاشی، آب و ہوا اور بھوک کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگ، غربت، آب و ہوا اور غذائی عدم تحفظ ’طویل عرصے سے ایک افسوس ناک حقیقت‘ رہی ہے لیکن ایک سال قبل طالبان کے قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر ترقیاتی امداد پر پابندی کی وجہ سے موجودہ صورتحال ’بہت نازک‘ ہوگئی ہے۔
گریفتھس نے کہا کہ نصف سے زائد افغان آبادی یعنی تقریباً 24 ملین افراد کو امداد کی ضرورت ہے اور ایک کروڑ 90 لاکھ کے قریب افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ’ہمیں فکر ہے کہ اعداد و شمار جلد ہی بڑھ جائیں گے کیونکہ موسم سرما کی وجہ سے تیل اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں پہلے ہی آسمان چھو رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور ان کے این جی او شراکت داروں نے گذشتہ ایک سال کے دوران ’غیر معمولی ردعمل‘ دکھایا اور یہ تقریباً دو لاکھ 30 ہزار افراد تک پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ موسم سرما کے لیے فوری طور پر 61 کروڑ40 لاکھ ڈالر درکار ہیں جن میں پناہ گاہوں کی مرمت اور اپ گریڈنگ اور گرم کپڑے اور کمبل فراہم کرنا شامل ہے۔
اس موسم کی وجہ سے بعض علاقوں تک رسائی منقطع ہونے سے قبل خوراک اور دیگر سامان کی پیشگی فراہمی کے لیے اضافی 15 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے۔ تاہم گریفتھس نے زور دے کر کہا کہ ’انسانی امداد اس نظام کی جگہ نہیں لے سکے گی جس کے ذریعے چار کروڑ لوگوں خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔‘ انہوں نے کہا:’طالبان کے پاس اپنے مستقبل میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی بجٹ نہیں اور یہ واضح ہے کہ کچھ ترقیاتی معاونت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘ 70 فیصد سے زیادہ افغان باشندوں کے دیہی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے گریفتھس نے خبردار کیا کہ اگر زراعت اور مویشیوں کی پیداوار کو نہ بچایا گیا تو ’لاکھوں جانوں اور ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور اس ملک میں خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت خطرے میں پڑ جائے گی۔_
انہوں نے کہا کہ ملک میں بینکنگ اور لیکویڈیٹی بحران اور بین الاقوامی مالیاتی لین دین کی بہت بڑی مشکل سے بھی نمٹنا ہوگا۔ گریفتھس نے خبردار کیا کہ انسانی اور ترقیاتی دونوں محاذوں پر غیر فعالیت کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔