دہلی: بنگلہ دیش میں سیاسی اتھل پتھل کے درمیان جہاں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا فوج نے کمان سنبھال لی اور اسٹوڈنٹس اپنی تحریک پر اڑے ہوئے ہیں اسی دوران بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ایک نیا نام سامنے ابھر کر ایا ہے جو محمد یونس کا ہے
اب احتجاجی طلباء نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر فوج کسی عبوری حکومت کی تشکیل کر رہی ہے تو اس نئی عبوری حکومت کی کمان چیف ایڈوائزر نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کو سونپی جاے-۔گرامین بینک کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر، ماہر اقتصادیات اور انٹرپرینور محمد یونس کو 2006 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ محمد یونس نے نے دو روز قبل ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر ہندوستان کی خاموشی پر دبے لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ملک میں جمہوری آزادی کے خاتمے کے سبب یہ دو تہائی نوجوان کبھی ووٹ نہیں ڈال سکے، بنگلہ دیش میں جو بے چینی پھیل رہی ہے اس کا اثر ہندوستان پر بھی پڑے گا۔
محمد یونس کون ہیں؟
دراصل 83 سالہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کو اپنے مائیکرو فنانس بینک ’گرامین‘ کے ذریعے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کا سہرا جاتا ہے لیکن طویل عرصے سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز شیخ حسینہ واجد انہیں اپنا حریف سمجھتی ہیں۔ حسینہ واجد نے ان پر غریبوں کا ’خون چوسنے‘ کا الزام لگایا ہے۔حسینہ واجد 2006 میں نوبل امن انعام حاصل کرنے والے محمد یونس کے خلاف سخت زبانی حملے بھی کرتی رہی ہیں۔اس وقت حسینہ واجد اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد آئندہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات میں پانچویں بار جیتنے کے لیے تیار ہیں۔ماہر اقتصادیات یونس اور گرامین ٹیلی کام کے تین ساتھیوں پر قائم مقدمے ان پر الزام تھا کہ وہ کمپنی میں ورکرز ویلفیئر فنڈ بنانے میں ناکام رہے۔ان چاروں نے حکومت کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
اگست میں سابق امریکی صدر باراک اوباما اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون سمیت 160 عالمی شخصیات نے محمد یونس کی ’مسلسل عدالتی ہراسانی‘ کی مذمت کرتے ہوئے ایک مشترکہ خط شائع کیا تھا۔اس خط پر دستخط کرنے والوں میں اوباما سمیت 100 سے زائد دیگر نوبل انعام یافتہ شخصیات شامل تھیں۔خط میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ’یونس کے تحفظ اور آزادی‘ سے متعلق خوفزدہ ہیں۔اس خط کے جواب میں بھی وزیراعظم حیسنہ واجد نے سخت بیانات دیے تھے۔