غزہ : اسرائیل حماس جنگ کو 7اکتوبر کو ایک سال مکمل ہوگیا ۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں مرنے والوں کی تعداد 43 ہزار سے تجاوز کرگئی جب کہ 96 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ایک شہر قبرستان بن چکا ہے۔ قبریں ہی قبریں ہیں ۔عمارتوں کا جنگل اب ملبے کا پہاڑ ہے ۔ یتیم بچوں اور بیو خواتین کے سات غزہ میں صرف موت ہی مت ہے ۔ایک سال کے دوران کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اسرائیل نے بمباری نہ کی ہو ۔اس جنگ سے غزہ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اس شہر میں 42 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہو چکا ہے۔ اس میں ٹوٹی ہوئی اور منہدم عمارتیں شامل ہیں۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ ملبہ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔
واشنگٹن میں ایک ہزار سے زائد افراد نے وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا، جہاں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مالی امداد کی فراہمی بند کرے۔ امریکہ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔اسی مظاہرے کے دوران بطور احتجاج ایک شخص نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ وہ اپنے بائیں بازو کو آگ لگانے میں کامیاب رہا لیکن وہاں موجود پولیس اور دیگر افراد نے متاثرہ شخص کی خود سوزی کی کوشش ناکام بنا دی اور اس کو حفاظتی حصار میں لے لیا۔فلسطینیوں کے ہزاروں حامی یورپ، افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ کے دیگر شہروں میں بھی جمع ہوئے اور انہوں نے غزہ کے ساتھ ساتھ لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
غزہ پر اسرائیلی کی وحشیانہ بمباری کے ایک سال مکمل ہونے پر امریکا، کینیڈا اور اسپین میں فلسطینیوں کی حمایت اور صیوہنی ریاست کی مخالفت میں مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جس میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کی گئی تھی۔ مظاہرین مسلسل جنگ نہیں امن کے نعرے لگا رہے تھے۔مظاہرین نے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنا کردار کریں۔ ناحق قتل عام کو بند کیا جائے گا اور راہداری کو کھولا جائے تاکہ اشیائے ضروریہ پہنچائی جاسکے۔احتجاجی مظاہرے میں سول سائیٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت طلبا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینی اسکارف پہن رکھا تھا۔مظاہرین نے اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے کے بعد لبنان پر حملوں کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں صبح سویرے مظاہرین کی بڑی تعداد اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی و حامی امریکہ کے سفارتخانے کی طرف مارچ کر رہی تھی۔ تاکہ اسرائیل کو اسلحہ دینے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکے۔اس موقع پر ریلی کے منتظمین اور سماجی رہنماؤں نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں تقریریں کیں اور انڈونیشیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی 'نارملائزیشن' کو انکار کر دے۔اسرائیل کے ایک بڑے اتحادی ملک آسٹریلیا میں بھی ہزاروں شہریوں نے سڈنی کے گلی کوچوں میں اسرائیلی جنگ کے خلاف احتجاج کیا اور آسٹریلین حکومت س مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ دینے سے باز رہے
جنوبی افریقہ کے شہروں ڈربن اور جوہانسبرگ میں بھی اسی طرح کی احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا گیا تھا جو سلسلہ آج اتوار کے روز کیپ ٹاؤن میں بھی جاری رہا۔ایک روز قبل ڈربن میں ہونے والے مظاہروں کے دوران جنوبی افریقہ کے شہریوں نے غزہ اور لبنان پر مسلط کردہ اسرائیلی جنگ کے خلاف مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور وہ ان جنگوں کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔وینزویلا کے شہر کراکس میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے اسرائیلی جنگ کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرین اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر برائے وینزویلا کے سامنے فلسطین کا ایک بڑا سا پرچم لے کر جمع تھے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوائی جائے۔
ملبہ ۔لاشین اور بیماریاں
یو این ڈی پی کے غزہ دفتر کے سربراہ، الیسنڈرو ماراسک نے کہا کہ ایک اندازے کی بنیاد پر، 10 ملین ٹن ملبہ ہٹانے پر 280 ملین ڈالر (2,352.84 کروڑ روپے) لاگت آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنگ اب رک جاتی ہے تو پورا ملبہ ہٹانے پر تقریباً 1.2 بلین ڈالر (10,083.64 کروڑ روپے) خرچ ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے اپریل میں اندازہ لگایا تھا کہ ملبہ ہٹانے میں 14 سال لگیں گے۔ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ موجودہ ملبہ 2008 اور ایک سال قبل جنگ کے آغاز کے درمیان غزہ میں جمع ہونے والے ملبے کی مقدار سے 14 گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، یہ 2016-17 میں عراق کی موصل جنگ میں جمع ہونے والے ملبے کی مقدار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اگر یہ ملبہ اکٹھا کیا جائے تو یہ مصر کے سب سے بڑے اہرام گیزا سے 11 گنا بڑا ہوگا۔
ملبے تلے 10 ہزار لاشیں دبی ہیں، کچھ بم بھی
ملبے میں لاشیں ہیں جنہیں نکالا نہیں جا سکا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق ان لاشوں کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ کچھ بم ایسے بھی ہیں جو پھٹے ہی نہیں۔انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ یہ خطرہ وسیع ہے۔ کچھ ملبے سے زخمی ہونے کا خطرہ ہے۔
ملبہ آلودہ، سنگین بیماریوں کا خطرہ
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے غزہ کے آٹھ پناہ گزین کیمپوں کے جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 2.3 ملین ٹن ملبہ آلودہ ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ نقصان دہ ہیں۔ اگر سانس لیا جائے تو ایسبیسٹس ریشے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ سال غزہ میں سانس کے شدید انفیکشن کے تقریباً 10 لاکھ کیسز ریکارڈ کیے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے کتنے کا تعلق دھول سے ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ترجمان بسمہ اکبر نے کہا کہ دھول ایک سنگین تشویش ہے۔ یہ پانی اور مٹی کو آلودہ کر سکتا ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ دھاتوں کا اخراج آنے والی دہائیوں میں کینسر اور پیدائش سے متعلق بیماریوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔صفائی کا کام اس ماہ شروع ہو جائے گا... اقوام متحدہ کے تین اہلکاروں نے کہا کہ غزہ کے حکام ملبہ ہٹانے پر غور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ان کی مدد کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کی زیر قیادت ملبے کے انتظام کے ورکنگ گروپ نے غزہ کے وسطی شہر دیر البلاح میں خان یونس اور فلسطینی حکام کے درمیان ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ سڑک کے کنارے سے ملبہ ہٹانے کا کام رواں ماہ شروع کر دیا جائے گا۔
غزہ : اسرائیل حماس جنگ کو 7اکتوبر کو ایک سال مکمل ہوگیا ۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں مرنے والوں کی تعداد 43 ہزار سے تجاوز کرگئی جب کہ 96 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ایک شہر قبرستان بن چکا ہے۔ قبریں ہی قبریں ہیں ۔عمارتوں کا جنگل اب ملبے کا پہاڑ ہے ۔ یتیم بچوں اور بیو خواتین کے سات غزہ میں صرف موت ہی مت ہے ۔ایک سال کے دوران کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اسرائیل نے بمباری نہ کی ہو ۔اس جنگ سے غزہ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اس شہر میں 42 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہو چکا ہے۔ اس میں ٹوٹی ہوئی اور منہدم عمارتیں شامل ہیں۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ ملبہ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔
واشنگٹن میں ایک ہزار سے زائد افراد نے وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا، جہاں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مالی امداد کی فراہمی بند کرے۔ امریکہ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔اسی مظاہرے کے دوران بطور احتجاج ایک شخص نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ وہ اپنے بائیں بازو کو آگ لگانے میں کامیاب رہا لیکن وہاں موجود پولیس اور دیگر افراد نے متاثرہ شخص کی خود سوزی کی کوشش ناکام بنا دی اور اس کو حفاظتی حصار میں لے لیا۔فلسطینیوں کے ہزاروں حامی یورپ، افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ کے دیگر شہروں میں بھی جمع ہوئے اور انہوں نے غزہ کے ساتھ ساتھ لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
غزہ پر اسرائیلی کی وحشیانہ بمباری کے ایک سال مکمل ہونے پر امریکا، کینیڈا اور اسپین میں فلسطینیوں کی حمایت اور صیوہنی ریاست کی مخالفت میں مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جس میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کی گئی تھی۔ مظاہرین مسلسل جنگ نہیں امن کے نعرے لگا رہے تھے۔مظاہرین نے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنا کردار کریں۔ ناحق قتل عام کو بند کیا جائے گا اور راہداری کو کھولا جائے تاکہ اشیائے ضروریہ پہنچائی جاسکے۔احتجاجی مظاہرے میں سول سائیٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت طلبا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینی اسکارف پہن رکھا تھا۔مظاہرین نے اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے کے بعد لبنان پر حملوں کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں صبح سویرے مظاہرین کی بڑی تعداد اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی و حامی امریکہ کے سفارتخانے کی طرف مارچ کر رہی تھی۔ تاکہ اسرائیل کو اسلحہ دینے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکے۔اس موقع پر ریلی کے منتظمین اور سماجی رہنماؤں نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں تقریریں کیں اور انڈونیشیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی 'نارملائزیشن' کو انکار کر دے۔اسرائیل کے ایک بڑے اتحادی ملک آسٹریلیا میں بھی ہزاروں شہریوں نے سڈنی کے گلی کوچوں میں اسرائیلی جنگ کے خلاف احتجاج کیا اور آسٹریلین حکومت س مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ دینے سے باز رہے
جنوبی افریقہ کے شہروں ڈربن اور جوہانسبرگ میں بھی اسی طرح کی احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا گیا تھا جو سلسلہ آج اتوار کے روز کیپ ٹاؤن میں بھی جاری رہا۔ایک روز قبل ڈربن میں ہونے والے مظاہروں کے دوران جنوبی افریقہ کے شہریوں نے غزہ اور لبنان پر مسلط کردہ اسرائیلی جنگ کے خلاف مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور وہ ان جنگوں کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔وینزویلا کے شہر کراکس میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے اسرائیلی جنگ کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرین اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر برائے وینزویلا کے سامنے فلسطین کا ایک بڑا سا پرچم لے کر جمع تھے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوائی جائے۔
ملبہ ۔لاشین اور بیماریاں
یو این ڈی پی کے غزہ دفتر کے سربراہ، الیسنڈرو ماراسک نے کہا کہ ایک اندازے کی بنیاد پر، 10 ملین ٹن ملبہ ہٹانے پر 280 ملین ڈالر (2,352.84 کروڑ روپے) لاگت آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنگ اب رک جاتی ہے تو پورا ملبہ ہٹانے پر تقریباً 1.2 بلین ڈالر (10,083.64 کروڑ روپے) خرچ ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے اپریل میں اندازہ لگایا تھا کہ ملبہ ہٹانے میں 14 سال لگیں گے۔ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ موجودہ ملبہ 2008 اور ایک سال قبل جنگ کے آغاز کے درمیان غزہ میں جمع ہونے والے ملبے کی مقدار سے 14 گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، یہ 2016-17 میں عراق کی موصل جنگ میں جمع ہونے والے ملبے کی مقدار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اگر یہ ملبہ اکٹھا کیا جائے تو یہ مصر کے سب سے بڑے اہرام گیزا سے 11 گنا بڑا ہوگا۔
ملبے تلے 10 ہزار لاشیں دبی ہیں، کچھ بم بھی
ملبے میں لاشیں ہیں جنہیں نکالا نہیں جا سکا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق ان لاشوں کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ کچھ بم ایسے بھی ہیں جو پھٹے ہی نہیں۔انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ یہ خطرہ وسیع ہے۔ کچھ ملبے سے زخمی ہونے کا خطرہ ہے۔
ملبہ آلودہ، سنگین بیماریوں کا خطرہ
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے غزہ کے آٹھ پناہ گزین کیمپوں کے جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 2.3 ملین ٹن ملبہ آلودہ ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ نقصان دہ ہیں۔ اگر سانس لیا جائے تو ایسبیسٹس ریشے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ سال غزہ میں سانس کے شدید انفیکشن کے تقریباً 10 لاکھ کیسز ریکارڈ کیے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے کتنے کا تعلق دھول سے ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ترجمان بسمہ اکبر نے کہا کہ دھول ایک سنگین تشویش ہے۔ یہ پانی اور مٹی کو آلودہ کر سکتا ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ دھاتوں کا اخراج آنے والی دہائیوں میں کینسر اور پیدائش سے متعلق بیماریوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔صفائی کا کام اس ماہ شروع ہو جائے گا... اقوام متحدہ کے تین اہلکاروں نے کہا کہ غزہ کے حکام ملبہ ہٹانے پر غور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ان کی مدد کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کی زیر قیادت ملبے کے انتظام کے ورکنگ گروپ نے غزہ کے وسطی شہر دیر البلاح میں خان یونس اور فلسطینی حکام کے درمیان ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ سڑک کے کنارے سے ملبہ ہٹانے کا کام رواں ماہ شروع کر دیا جائے گا۔