تہران : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کا باضابطہ جواب دے دیا، جس میں انہوں نے ایران سے ایک نیا جوہری معاہدہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ ، یہ جواب عمان کےذریعے پہنچایا گیا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران براہ راست مذاکرات کے لیے تیار نہیں، خاص طور پر جب دباؤ اور فوجی دھمکیاں موجود ہوں۔ تاہم، ماضی کی طرح بالواسطہ مذاکرات کا امکان برقرار ہے۔
اسی دن، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی نے عندیہ دیا کہ تہران نے امریکہ کے ساتھ سفارتی حل کے تمام دروازے بند نہیں کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ دوسرے فریق کی نیت کا جائزہ لیا جا سکے اور اپنی شرائط واضح کی جا سکیں۔
ایران کی قیادت نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو مسترد کر دیا ہے، جن میں انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ اگر ایران نیا معاہدہ نہیں کرتا تو اسے فوجی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خامنہ ای نے اس پیغام کو "دھوکہ دہی پر مبنی" قرار دیا، جبکہ عراقچی نے کہا کہ جب تک امریکہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ختم نہیں کرتا، مذاکرات ممکن نہیں۔عباس عراقچی نے بتایا کہ ایران کا جواب تحریری شکل میں دیا گیا ہے، جس میں موجودہ صورت حال اور ٹرمپ کے خط پر ایرانی مؤقف کی وضاحت کی گئی ہے۔
پس منظر اور جوہری معاہدہ
سال2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایک جوہری معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں قبول کیں، اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ تاہم، ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے نکال کر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں، جس کے جواب میں ایران نے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم افزودگی کے عمل کو آگے بڑھایا۔
مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ اس کی یورینیم افزودگی کی سطح سول نیوکلیئر انرجی کے لیے درکار حد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف، ایران مسلسل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور سول انرجی کے لیے ہے۔
کیا ایران-امریکہ تعلقات میں تبدیلی ممکن ہے؟
امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں، لیکن حالیہ بالواسطہ مذاکرات کے عندیے سے سفارتی حل کی ایک نئی راہ کھلنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم، ایران اب بھی کسی بھی قسم کے معاہدے کے لیے اپنی شرائط واضح کرنا چاہتا ہے، جبکہ امریکہ اپنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔