ایران : ایران کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو اعلان کیا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کا دوسرا دور مکمل ہو چکا ہے، اور فریقین نے اگلے ہفتے تیسرے دور پر اتفاق کر لیا ہے۔ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، یہ ملاقات اومان کی ثالثی میں روم میں ہوئی، جس کا دورانیہ چار گھنٹے رہا۔ حکام نے مذاکرات کے ماحول کو "تعمیری" اور پیش رفت کے حامل قرار دیا۔
"اصولوں اور اہداف پر بہتر تفہیم" — عباس عراقچی
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے مذاکرات کے بعد کہا کہ یہ ایک اچھی ملاقات تھی، ہم اصولوں اور اہداف کے حوالے سے ایک بہتر تفہیم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بتایا کہ فریقین نے تکنیکی سطح پر بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جو آئندہ ہفتے دو سینئر مذاکرات کاروں کی موجودگی میں ہوں گے۔
فریقین کے نمائندگان کون ہیں؟
ان مذاکرات میں ایران کی جانب سے عباس عراقچی جبکہ امریکہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف شریک ہوئے۔ یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔
امریکہ کے خدشات، ایران کی تردید
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ تاہم، تہران مسلسل ان الزامات کو رد کرتا آیا ہے، اور اس کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ اور حالیہ پیش رفت
ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بگاڑ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مزید گہرا ہوا، جب انہوں نے ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور جوہری معاہدے(JCPOA) سے علیحدگی اختیار کر لی۔
2024 میں دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد، ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھا، جس میں جوہری مذاکرات کی بحالی کی پیشکش کے ساتھ یہ تنبیہ بھی شامل تھی کہ سفارت کاری ناکام ہوئی تو فوجی کارروائی ممکن ہے۔
جمعرات کو ایک بیان میں ٹرمپ نے کہاکہ میں فوجی اقدام کے لیے جلدی میں نہیں ہوں، میرا خیال ہے کہ ایران بات کرنا چاہتا ہے
ٹکراو کا خطرہ بدستور موجود
جمعے کو عباس عراقچی نے کہا کہ ایران نے ابتدائی مذاکرات کے دوران امریکہ کی جانب سے "کسی حد تک سنجیدگی" دیکھی، مگر اب بھی امریکی عزائم پر شکوک و شبہات باقی ہیں۔ہمیں امریکی ارادوں پر تحفظات ہیں، مگر ہم ہفتے کو مذاکرات میں شریک ہوں گے۔، ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عراقچی اور وٹکوف کسی مشترکہ نقطے پر پہنچ پاتےہیں یا نہیں۔ ناکامی کی صورت میں کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے، حتیٰ کہ فوجی کارروائی یا ایران کی جانب سے جوہری پروگرام میں تیزی بھی ممکنہ ردعمل ہو سکتا ہے۔
📌ایران-امریکہ جوہری تنازع: ایک مختصر ٹائم لائن
سال |
واقعہ |
---|---|
1979 |
ایران میں اسلامی انقلاب، امریکی سفارت خانے پر قبضہ، سفارتی تعلقات منقطع |
2015 |
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ(JCPOA) طے پایا |
2018 |
ٹرمپ انتظامیہ کاJCPOA سے علیحدگی اور نئی پابندیاں |
2020 |
امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی ہلاک، ایران کا جوابی حملہ |
2023 |
ایران کا یورینیئم افزودگی میں اضافہ، مغرب کی تشویش میں اضافہ |
2024 |
خفیہ مذاکرات کا آغاز، دوبارہ بات چیت کی کوششیں |
کیا اگلا دور فیصلہ کن ہو گا؟
اگرچہ مذاکراتی فضا کو تعمیری قرار دیا گیا ہے، تاہم اعتماد کی کمی، علاقائی تناؤ اور ماضی کے تلخ تجربات اس عمل کو غیر یقینی بنا رہے ہیں۔ آنے والے ہفتے کے مذاکرات ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی سمت کے تعین میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔