لاذقیہ:دمشق سے تقریباً 330 کلومیٹر دور شام کے شہر لاذقیہ میں 36 سالہ علی کوشمار گولیوں کی آواز سے نیند سے جاگا۔ اسے فائرنگ کے ساتھ گاڑیوں کے ٹائروں کی چیخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اور درجنوں مسلح افراد چیخ رہے تھے۔ ان میں سے ایک چلایا، "باہر آؤ، علوی سور، نصیری! یہ نصیری لفظ ابن نصیر کے پیروکاروں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو کہ علوی برادری کے ایک قابلِ احترام شخصیت تھے۔ علوی شام کی کل آبادی کا تقریباً 12 فیصد ہیں اور زیادہ تر لاذقیہ اور طرطوس کے علاقوں میں مقیم ہیں۔
اس کے برعکس، شام کی مجموعی آبادی میں 70-75 فیصد سنی مسلمان ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، جو کہ خود بھی علوی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے، علویوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومت نواز جنگجو پرانے نظام کے باقیات کو جڑ سے اکھاڑنے کا نعرہ لگا کر علوی برادری کا قتل عام کر رہے ہیں۔ علویوں کے گھروں پر حملے کیے جا رہے ہیں، انہیں جبری طور پر بے گھر کیا جا رہا ہے، اور انہیں اجتماعی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔
علی کوشمار نےبتایا: ہتھیاروں سے لیس لوگ ہمارے گاؤں میں داخل ہوئے، وہ ہمارے گھر تک پہنچے اور چیختے ہوئے کہا، باہر نکلو، علوی سور، نصیری! انہوں نے دروازے توڑ دیے اور ہم پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ وہ میرے بھائی کو اٹھا کر لے گئے، اور ہمیں اب تک نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ ہمیں ختم کر رہے ہیں۔ علی کوشمار کو تین مرتبہ چاقو مارا گیا – ایک مرتبہ سر پر، دوسری بار پشت پر اور تیسری بار پیٹ میں۔ وہ کہتا ہے: رات بھر میرا خون بہتا رہا، آخرکار ایک گاڑی ملی جو مجھے اسپتال لے گئی۔
اب میری حالت مستحکم ہے، لیکن میں اور میرے اہل خانہ بالکل محفوظ محسوس نہیں کر رہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم مزید کتنے دن زندہ رہ سکیں گے۔ ہمارا نام ہی ہماری علوی شناخت ظاہر کر دیتا ہے۔ ہماری بول چال کا لہجہ ہمیں بے نقاب کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے رہائشی علاقے کی پہچان بھی ہمیں خطرے میں ڈال رہی ہے۔ علوی برادری اور سنی عسکریت پسند گروہوں، خصوصاً وہابی نظریے سے متاثرہ جنگجوؤں کے درمیان کشیدگی میں شدت آ گئی ہے۔
گزشتہ سال بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، یہ جنگجو اس علاقے میں گھس آئے اور نہ صرف حکومتی حامیوں، فوجیوں، بلکہ عام شہریوں، کسانوں، مسیحیوں اور شیعہ مسلمانوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ حماہ کے علاقے میں 86 سالہ علوی مذہبی رہنما شیخ شعبان منصور اور ان کے بیٹے کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ تشدد میں تیزی آگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں جنگجو سرعام قتل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم "سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس" کے مطابق، 6 مارچ سے اب تک کم از کم 973 شہری مارے جا چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس تنظیم نے ان واقعات کو نسلی صفائی کا حصہ قرار دیا ہے، یعنی مخصوص برادری کو ختم کرنے کے لیے قتل عام کیا جا رہا ہے۔ 31 سالہ کمپیوٹر سائنس انجینئر، ابراہیم سلامہ، جو کہ لاذقیہ میں مقیم ہیں، نے بتایا: جب 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی، تو ہم نے مذہب کی پرواہ کیے بغیر بے گھر ہونے والے شامیوں کے لیے اپنے دروازے کھولے۔
ہم نے 2020 اور 2022 میں بھی یہی کیا۔ شامی لوگ فرقہ وارانہ تقسیم کو نہیں مانتے، لیکن نئی حکومت اس بھائی چارے کو بچانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتے، اسدی فوج کے سابق جنرل غیاث دالا اور فیلڈ کمانڈر مقداد فاتیحہ کی قیادت میں 200 جنگجوؤں نے کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی فوج پر حملہ کیا، جس میں کئی عسکریت پسند مارے گئے۔
اس حملے کے بعد حکومت کو مداخلت کے لیے فوج بھیجنی پڑی۔ 33 سالہ حسین خلاف، جو کہ طرطوس سے تعلق رکھتے ہیں، نے بتایا: الجولانی کی فوج میں شام کے مختلف صوبوں سے لوگ شامل ہو رہے ہیں، اور وہ علویوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ قتل عام کے ساتھ ساتھ، جبلیہ، لاذقیہ، بنیاس اور دیگر دیہاتی علاقوں میں بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ گھروں کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے، اور زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پورے خاندانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔
شام میں سرگرم مسلح گروہ، جیسے الامشات اور الحمزات، کے ساتھ ساتھ چیچنیا، ازبکستان اور افغانستان کے جنگجو بھی ان حملوں میں شامل ہیں۔ حسین خلاف کے مطابق: انہوں نے بنیاس، جبلیہ، اور قارتو میں پورے کے پورے خاندانوں کو قتل کر دیا ہے۔ ٹیلیگرام اور واٹس ایپ پر ایسی متعدد ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں لوگوں کے اجتماعی قتل اور وحشیانہ ہلاکتوں کے مناظر موجود ہیں۔ ایک ویڈیو میں، ایک شامی جنگجو خون میں لت پت لاشوں پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
دوسری ویڈیو میں ایک شخص کو کرین سے لٹکایا گیا ہے، جسے سرعام پھانسی دی گئی ہے۔ ابراہیم سلامہ، جن کا تعلق ایک مخلوط مذہبی خاندان سے ہے – ان کی ماں سنی، والد علوی، اور کچھ رشتہ دار مسیحی ہیں – نے بتایا کہ: علوی برادری، نئی شامی حکومت کی مخالف نہیں ہے اور نہ ہی اسد حکومت کی واپسی چاہتی ہے۔ لیکن نئی حکومت میں کئی مسلح گروہ بے قابو ہیں، اور یہ فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں کچھ عسکریت پسند گروہ ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں، اور وہ اب بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علوی برادری کے لوگوں میں خوف بڑھ رہا ہے، اور وہ محفوظ مقامات کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔