ٹرمپ کا پاناما اور سویز کینال سے متعلق متنازع مطالبہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 27-04-2025
ٹرمپ کا پاناما اور سویز کینال سے متعلق متنازع مطالبہ
ٹرمپ کا پاناما اور سویز کینال سے متعلق متنازع مطالبہ

 



واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر متنازع موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاناما اور سویز نہر سے گزرنے والے امریکی بحری جہازوں کو مفت سفر کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ان کا مؤقف ہے کہ چونکہ امریکہ عالمی طاقت ہے، اس لیے اسے بین الاقوامی بحری گزرگاہوں پر خصوصی رعایت حاصل ہونی چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں انکشاف کیا کہ انہوں نے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات دی ہیں کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر سنجیدگی سے لیں اور مستقبل کی پالیسی میں اس پہلو کو پیش نظر رکھیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ ٹرمپ نے پاناما نہر سے متعلق کوئی سخت مؤقف اپنایا ہو۔ وہ ماضی میں بارہا یہ اظہار کر چکے ہیں کہ پاناما نہر کا انتظام دوبارہ امریکہ کو دیا جانا چاہیے، جو کہ 1999 تک امریکی کنٹرول میں تھی۔

جنوری میں، اپنی دوسری مدتِ صدارت کا حلف اٹھانے سے قبل، ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ پاناما نہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے معاشی دباؤ یا فوجی طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ٹرمپ کے اس مطالبے نے سفارتی اور بین الاقوامی ماہرین کے حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔

پاناما اور سویز نہریں بین الاقوامی سمندری تجارت کی اہم ترین گذرگاہیں ہیں، اور ان پر کسی ایک ملک کو خصوصی رعایت دینا نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ علاقائی کشیدگی اور اقتصادی ناہمواری کو بھی جنم دے سکتی ہے۔

پاناما نہر 1914 میں امریکی زیرِ نگرانی تعمیر کی گئی تھی، اور تقریباً ایک صدی تک امریکہ اس پر کنٹرول رکھتا رہا۔ 1977 میں ہونے والے توریخوس-کارٹر معاہدے کے تحت یہ نہر 1999 میں پاناما کے حوالے کر دی گئی تھی۔

سویز نہر مصر کی ملکیت ہے، اور یہ افریقہ اور ایشیا کے درمیان مختصر ترین بحری راستہ فراہم کرتی ہے۔ یہاں سے روزانہ ہزاروں ٹن مال بردار جہاز گزرتے ہیں، جن پر بھاری ٹول فیس لاگو ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ مطالبہ بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں سے ہٹ کر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قانونِ سمندر کے تحت، تمام ممالک کو غیر جانبدار اور منصفانہ سلوک کے اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر امریکہ کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے، تو دیگر بڑی طاقتیں بھی ایسے مطالبات کریں گی، جس سے عالمی تجارتی نظام عدم توازن کا شکار ہو سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ بیانات ان کی سابقہ پالیسیوں کی جھلک دیتے ہیں جہاں وہ امریکہ کو ہر عالمی ادارے یا معاہدے میں بالاتر دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے یک طرفہ اقدامات کیوں نہ کرنے پڑیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان بیانات کا سفارتی سطح پر کیا ردِعمل آتا ہے اور آیا امریکہ کی موجودہ انتظامیہ اس مؤقف کو آگے بڑھاتی ہے یا نہیں۔