شام کے نئے کھلاڑی ابو محمد الجولانی کون ہیں ؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-12-2024
شام کے  نئے کھلاڑی  ابو محمد الجولانی کون ہیں ؟
شام کے نئے کھلاڑی ابو محمد الجولانی کون ہیں ؟

 

  نئی دہلی :مشرق وسطی میں ایک اور تانا شاہ کا خاتمہ ہوگیا،شام میں اسد حکومت کو باغیوں نے  انجام تک پہنچا دیا ہے ۔اب اسد کی زندگی اور موت پر ہی بحث شروع ہوچکی ہے ۔ شام میں چند دنوں کے دوران جو کایا پلٹ ہوئی اس کی بنیاد یوں تو 2011 کی بغاوت سے ہی پڑی تھی لیکن طویل  خانہ جنگی کے بعد اسد نے روس کی مدد سے حکومت کو بچا لیا تھا لیکن اب دو ہفتوں کے اندر شام میں  اسد حکومت کا صفایا ہوگیا  اور اس کا ہیرو مانا جارہا ہے باغی لیڈر ابو محمد الجولانی  کو جو اپوزیشن  کے اتحاد ’حیات تحریر الشام‘ (ایچ ٹی ایس) کے کماندار ہیں ۔لیکن ابتک لوگ ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں 

برطانوی اخبار دا گارڈین کے مطابق ابو محمد الجولانی 1982 میں سعودی عرب کے ریاض کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے دمشق کے ایک پوش علاقے مزہ میں پرورش پائی۔الجولانی نے 27 نومبر کو شامی حکومت کو گرانے کے لیے شروع کی گئی کارروائیوں کے دوران اپنے اصلی نام احمد حسین سے اپنے بیانات جاری کرنے کا آغاز کیا۔
رپورٹس کے مطابق دمشق میں گزرے وقت کے بارے میں ان کے حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن یہ معلومات ہیں کہ 2003 میں وہ عراق منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اسی سال امریکا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے طور پر القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں ابو محمد الجولانی کو 2006 میں عراق میں امریکی افواج نے گرفتار کیا اور 5 سال تک قید میں رکھا۔ رہائی کے بعد، الجولانی کو شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم 'النصرہ فرنٹ' قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس نے خاص طور پر ادلب میں مخالف قوتوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنا اثر بڑھایا۔
سال 2021 میں ابو محمد الجولانی نے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ان کا نام گولان کی پہاڑیوں سے ان کے خاندان کے تعلق کی وجہ سے پڑا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دادا کو 1967 میں اسرائیل کے اس علاقے پر قبضے کے بعد فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔لیکن ایک لبنانی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے، جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔مڈل ایسٹ آئی نیوز ویب سائٹ کے مطابق 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے بعد الجولانی پہلی بار شدت پسندانہ سوچ کی طرف راغب ہوئے۔

ان کی شخصیت کے بارے میں مختلف ایجنسیوں کے اپنے اپنے اندازے ہیں ،کئی مغربی رپورٹس کے مطابق ابو محمد الجولانی نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن میڈیکل کالج کے اپنے تیسرے سال کے دوران عراق پر امریکہ کے 2003 میں حملے کے بعد انہوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کر لی۔بی بی سی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ ابو محمد الجولانی جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی موت کے بعد وہ لبنان منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔اس کے بعد ابو محمد الجولانی کی عراق واپسی کی رپورٹس ملیں، جہاں امریکی فوج نے مبینہ طور پر انہیں گرفتار کیا اور کچھ عرصے تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں انہیں رہا کیا گیا تو وہ القاعدہ چھوڑ کر داعش میں شامل ہو گئے۔

 کہا جاتا ہے کہ ابو محمد الجولانی کو امریکہ کے بدنام زمانہ کیمپ بکا میں رکھا گیا تھا، جہاں ان کے شدت پسند نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی تنظیم داعش کے رہنماؤں سے تعلقات قائم ہوئے تھے۔لیکن کچھ رپورٹس  کا دعوی تھا کہ  وہ داعش میں شامل نہیں ہوئے بلکہ اگست 2011 میں شام واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے القاعدہ کی ایک نئی شاخ کھولی، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ تھا۔رپورٹس کے مطابق   اس کے بعد  الجولانی  نے  خود کو  داعش اور القاعدہ سے دور کر لیا تھا 

رپورٹس کے مطابق ابتدائی سالوں میں الجولانی نے ابو بکر البغدادی کے ساتھ کام کیا، جو عراق میں القاعدہ کے اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جو بعد میں داعش کے نام سے جانی جانے لگی۔ اپریل 2013 میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی تنظیم القاعدہ سے تعلق ختم کر رہی ہے اور شام میں پھیل رہی ہے، جس سے النصرہ فرنٹ کو ایک نئی تنظیم داعش میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم الجولانی نے اس تبدیلی کو مسترد کر دیا اور القاعدہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی۔ 2014 میں اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں الجولانی نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ شام کو اسلامی قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے اور ملک کی اقلیتوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔تاہم وقت گزرنے کےساتھ الجولانی اس منصوبے سے دور ہوتے نظر آئے اور اس کی بجائے وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے گروپ کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرتے دکھائی دیے۔

گارڈین کے مطابق 2016 میں القاعدہ سے تعلقات توڑنے کے بعد سے الجولانی نے خود کو زیادہ اعتدال پسند رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ابھی تک تجزیہ کاروں اور مغربی حکومتوں کے شکوک و شبہات کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو اب بھی ان کی تنظیم ایچ ٹی ایس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہیں۔اپنے حامیوں کی نظر میں ایک حقیقت پسند رہنما ابو محمد الجولانی نے مئی 2015 میں کہا تھا کہ وہ داعش کے برعکس مغرب کے خلاف حملے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر بشار الاسد کو شکست دی جائے تو علوی اقلیت کے خلاف انتقامی حملے نہیں ہوں گے۔