نئی دہلی :مشرق وسطی میں ایک اور تانا شاہ کا خاتمہ ہوگیا،شام میں اسد حکومت کو باغیوں نے انجام تک پہنچا دیا ہے ۔اب اسد کی زندگی اور موت پر ہی بحث شروع ہوچکی ہے ۔ شام میں چند دنوں کے دوران جو کایا پلٹ ہوئی اس کی بنیاد یوں تو 2011 کی بغاوت سے ہی پڑی تھی لیکن طویل خانہ جنگی کے بعد اسد نے روس کی مدد سے حکومت کو بچا لیا تھا لیکن اب دو ہفتوں کے اندر شام میں اسد حکومت کا صفایا ہوگیا اور اس کا ہیرو مانا جارہا ہے باغی لیڈر ابو محمد الجولانی کو جو اپوزیشن کے اتحاد ’حیات تحریر الشام‘ (ایچ ٹی ایس) کے کماندار ہیں ۔لیکن ابتک لوگ ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں
ان کی شخصیت کے بارے میں مختلف ایجنسیوں کے اپنے اپنے اندازے ہیں ،کئی مغربی رپورٹس کے مطابق ابو محمد الجولانی نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن میڈیکل کالج کے اپنے تیسرے سال کے دوران عراق پر امریکہ کے 2003 میں حملے کے بعد انہوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کر لی۔بی بی سی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ ابو محمد الجولانی جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی موت کے بعد وہ لبنان منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔اس کے بعد ابو محمد الجولانی کی عراق واپسی کی رپورٹس ملیں، جہاں امریکی فوج نے مبینہ طور پر انہیں گرفتار کیا اور کچھ عرصے تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں انہیں رہا کیا گیا تو وہ القاعدہ چھوڑ کر داعش میں شامل ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ ابو محمد الجولانی کو امریکہ کے بدنام زمانہ کیمپ بکا میں رکھا گیا تھا، جہاں ان کے شدت پسند نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی تنظیم داعش کے رہنماؤں سے تعلقات قائم ہوئے تھے۔لیکن کچھ رپورٹس کا دعوی تھا کہ وہ داعش میں شامل نہیں ہوئے بلکہ اگست 2011 میں شام واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے القاعدہ کی ایک نئی شاخ کھولی، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ تھا۔رپورٹس کے مطابق اس کے بعد الجولانی نے خود کو داعش اور القاعدہ سے دور کر لیا تھا
رپورٹس کے مطابق ابتدائی سالوں میں الجولانی نے ابو بکر البغدادی کے ساتھ کام کیا، جو عراق میں القاعدہ کے اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جو بعد میں داعش کے نام سے جانی جانے لگی۔ اپریل 2013 میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی تنظیم القاعدہ سے تعلق ختم کر رہی ہے اور شام میں پھیل رہی ہے، جس سے النصرہ فرنٹ کو ایک نئی تنظیم داعش میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم الجولانی نے اس تبدیلی کو مسترد کر دیا اور القاعدہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی۔ 2014 میں اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں الجولانی نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ شام کو اسلامی قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے اور ملک کی اقلیتوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔تاہم وقت گزرنے کےساتھ الجولانی اس منصوبے سے دور ہوتے نظر آئے اور اس کی بجائے وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے گروپ کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرتے دکھائی دیے۔