علیگ برادری سرسید کے معاشرے کی خدمت کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرسکی : ولی رحمانی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-10-2024
علیگ برادری  سرسید کے معاشرے کی خدمت کے بنیادی مقصد کو پورا  نہ کرسکی : ولی رحمانی
علیگ برادری سرسید کے معاشرے کی خدمت کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرسکی : ولی رحمانی

 

کولکتہ:سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی، ایشیا کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز بنایا ، مگر اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے، سر سید احمد خان کا مقصد تھا کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے معاشرے کو کچھ واپس کریں،اس کی خدمت کریں ، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے والے اپنےمعاشرے کو کچھ بھی واپس کرنے میں ناکام ہیں،جو صرف انفرادی کامیابی کو زندگی کا مقصد بنا چکے ہیں 

ان خیالات کا اظہار 26 سالہ نوجوان ماہر تعلیم ولی رحمانی نے کولکتہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں سر سید ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد کیاجو انہیں کولکتہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں ایک خصووی تقریب میں دیا گیا۔یاد رہے کہ ولی رحمانی نے صرف دس دنوں میں دس کروڑ روپئے کے عطیات سے ایک سال کے دوران ایک اسکول تعمیر کردیا تھا اور اب  مسلم بچوں کے لیے  پچاس کروڑ روپئے کی اسکالر شپ کا اعلان کیا ہے جس کا اعلان  اے پی جے عبدالکلام  کے یوم پیدائش پر کلام لرننگ  سینٹر  کے قیام کے ساتھ کیا تھا 

ولی رحمانی نے  سرسید ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد کہا کہ سر سید احمد خان نے صرف باتیں نہیں کی تھیں بلکہ عملی طور پر کچھ کر دکھایا تھا ،اس کی سوچ معاشرے کی  خدمت کرنا تھی ،تعلیم صرف پیٹ بھرنے کا ذریعہ  نہیں تھی ،مگر افسوس یہ لوگ صرف باتیں کر رہے ہیں, سرسید کے ویژن کے قریب بھی نہیں ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی سے وابستہ ہو جانا اور یہیں پر زندگی گزار کر ریٹائر ہو جانا ہے، سر سید کا یہ  خواب نہیں تھا: آپ بتائیں آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے مگر ایک ایم یو کے کامیاب ترین لوگوں نے اس میدان میں کیا خدمات اور کارنامے انجام دیے ہیں۔ ولی رحمانی نے مزید کہا کہ ہم نے تعلیم کو پیٹ کا مسئلہ بنا دیا ہے لیکن سر سید احمد خان کا یہ ویزن نہیں تھا ان کی تعلیم پیٹ کے لیے نہیں تھی- انہوں نے کہا کہ جو تعلیم حاصل کرتا ہے صرف پیٹ بھرنے کے لیے اس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا, تعلیم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم سماج میں اپنا کردار ادا کریں، اس اپنا حصہ ادا کریں، اپنی ذمہ داری نبھائیں۔

ولی رحمانی نے کہا کہ آج دور ہے ٹیکنالوجی کا اگر ہم یہ باتیں کرتے رہ جائیں گے کہ سرسید نے یہ کیا سر سید نے وہ کیا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ ہمیں اس وقت ٹیکنالوجی کے میدان میں اگے بڑھنا ہے- ولی رحمانی نے کہا کہ سرسید کا ویژن بہت عظیم تھا، سر سید بہت بڑی طاقت دے گئے مگر اہل علی کا یہ علی برادری صرف سر سید کی تعریف میں مصروف ہے۔سر سید کے مقصد کو انجام تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے ،ایسے نعروں کے سبب ہم وہ تعلیم حاصل کر لیں گے۔ جس کی آج کے دور میں کوئی ضرورت نہیں ہے یا کوئی اہمیت نہیں ہے, اگر ہم صرف ٹیکنالوجی کے خریدار بن کر رہ گئے تو ہمیں کوئی نہیں پہچانے گا، کوئی نہیں سراہے گا۔ آج مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں، ہمیں ایسا آدمی چاہیے جو واٹس ایپ جیسا ایپ تیار کرے۔ولی رحمانی نے کہا کہ اسرائیل نے لبنان میں پیجر کا استعمال ۔کرتے ہوئے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کر دیا ، اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اس ٹیکنالوجی کا حصہ دار تھا اور ہم خریدار-۔ہمیں ان پہلوں پر غور کرنا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام پر بات کریں تو یہ حقیقت سامنے ہے کہ یہ نظام انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اور اپ غور کریے اس نظام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ تعلیم یافتہ لوگوں کی شکل میں ملازمت تلاش کرنے والے پیدا کرتا ہے- جبکہ ہمیں ملازمت مہیا کرانے والا بننا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام کو بدلا جائے، موجودہ نظام فیل اور پاس کی بنیاد پر قائم ہے جبکہ اس نظام کو سیکھنے کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے، بات فیل اور پاس کی نہیں بلکہ یہ ہونی چاہیے کہ آپ نے کیا سیکھا اور نظام میں کیا سکھایا۔انہوں نے کہا کہ میں سر سید کے نام پر کسی ایوارڈ کا حقدار نہیں ،میرا مشن تو ابھی شروع ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب لوگ کہتے ہیں کہ  آپ نے ایک سال کے دوران ایک اسکول قائم کرلیا اب مزید اسکول بنائیں ۔ لیکن میں نے کہا ہے کہ بات اسکول کی نہیں بلکہ تعلیمی ماڈل کی ہے اگر میں نے اس اسکول کی بنیاد پر ایک کامیاب ماڈل تیار کرلیا تو یقینا مزید اسکول قائم کروں گا ،فی الحال  میں  اپنے اس ماڈل  پر توجہ دے رہا ہوںجس میں بچوں کو اسٹوڈینٹ نہیں بلکہ لرنر کہا جاتا ہے ۔