محفوظ عالم ۔پٹنہ
میں نہیں مانتا کی اردو کسی خاص مذہب کی زبان ہے۔ اردو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تمدن کی زبان ہے، اردو گنگا جمنی ہندوستانی کلچر کی بنیاد ہے تو اردو پریم چند، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، گلزار، کرشن چندر بیدی اور گوپی چند نارنگ کی زبان ہے۔ ہندوستان میں ہندو شاعروں، ادیبوں اور مصنفین نے اردو میں بے شمار کام کیے ہیں جو ہندوستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ہاں آج کچھ لوگ کہتےہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے، ان کی سونچ پر میں ترس کھاتا ہوں۔
یہ خیالات چندر بھوشن کے ہیں ۔ اردو کے مداح ۔ ایک ریسرچ اسکالر ۔ جنہیں ان کے دادا نے اردو کی جانب راغب کیا اور ایک مسجد کے امام ان کے پہلے اردو ٹیچر تھے،ان کا اردو میں ریسرچ کرنے کا فیصلہ دوستوں کو حیران کر گیا تھا ۔مگر اردو سے ان کا ساتھ کل بھی تھا،آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔
چندر بھوشن کون ہیں اور انہیں اردو زبان سے کیسے عشق ہوا اور اردو سے کیوں وہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ آواز دی وائس نے ان سب باتوں پر ریسرچ اسکالر چندر بھوشن سے تفصیل بات چیت کیا۔
دادا کے شوق نے بنایا اردو کا ریسرچ اسکالر
کہا جاتا ہے کہ گھر کا ماحول کسی بچہ کے نشوونما کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوتا ہے۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے چندر بھوشن نے کہا کہ یہ بات اس وقت کہ ہے جب میں کافی چھوٹا تھا، ابھی پڑھنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ میرے دادا شری رام نندن سنگھ بہار کے جہان آباد میں ایک سرکاری مڈل اسکول کے ٹیچر تھے۔ وہ سائنس کے ٹیچر تھے لیکن انہیں اردو زبان سے شغف تھا۔ وہ کہانی اس طرح سے ہے کہ وہ جس اسکول کے ٹیچر تھے وہاں اردو پڑھنے والے طلباء کی کثیر تعداد تھی لیکن اردو کے بچوں کو پڑھانے والا کوئی ٹیچر نہیں تھا۔ میرے دادا نے اس تعلق سے کافی کوششیں کی لیکن اردو کا ٹیچر بحال نہیں ہو سکا تو انہوں نے اپنے خرچ سے ایک اردو کے ٹیچر کو تقرر کیا جو مہینہ میں پندرہ دن آکر اسکول کے بچوں کو اردو پڑھا دیا کرتا تھا۔ اس وقت میرے دادا نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں اپنے پوتوں کو اردو پڑھاؤ گا۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میرے والد ارون کمار بی اے کر چکیں تھے اور بے روزگار تھے۔ انہیں نوکری نہیں ملی تو وہ گھر پر ہی کھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ سن 2000 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ بہر حال ہم تین بھائی ہوئے اور تینوں بھائیوں کی تربیت میرے دادا نے کیا اور ہم سب کو شروع سے ہی اردو کی تعلیم دلائی۔ افسوس ہے کہ میرے دو بھائی جو کالج تک پہنچ گئے تھے لیکن ان کا انتقال ہو گیا۔ دادا نے میری ابتدائی تعلیم میں اردو کو بھی شامل رکھا۔ نتیجہ کے طور پر بچپن سے ہی مجھے اس زبان سے لگاؤ ہو گیا اور آج میں اردو سے پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔
چندر بھوشن اور ان کے دادا
مسجد کے امام میرے پہلے اردو کے ٹیچر
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میرے دادا کا شوق تھا کہ میرا پوتا اردو پڑھیں لہذا انہوں نے مجھے بچپن سے ہی اردو کی تعلیم دلائی۔ چندر بھوشن کے مطابق جہان آباد میں ان کے گاؤں شری بگھا شکور آباد کے مسجد میں سیتا مڑی ضلع کے ایک امام تھے ان کا نام تھا حافظ سرف الدین وہ میرے اردو کے پہلے استاد بنے اور ان سے میں نے اردو کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پانچویں جماعت تک کی اردو کی کتابیں میں نے امام صاحب سے پڑھی۔ اپنے گاؤں کے اسکول سے ہی میں نے 10ویں کیا۔ 12ویں میں پہنچا تو ایک سو نمبر کا اردو مضامین لیا اور کامیاب رہا۔ گریجویشن کی تعلیم اردو سے مکمل کیا اور پھر مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا سے اردو سے ایم اے کی ڈگڑی حاصل کی اور مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا سے ہی اردو سے پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ اردو زبان کو سیکھنے اور پڑھنے کا سفر اتنا خوبصورت رہا ہے کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا خواب ہے کہ ہندوستان کی اس مشترکہ زبان کو جو یہاں کی کلچر کو صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے رکھتی ہے اس کو فروغ دوں۔
زبانیں کسی خاص مذہب کی نہیں ہوتی
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میرے دادا نے اردو کو کافی پروموٹ کیا۔ اتنا ہی نہیں کہ انہوں نے اپنے گھر کے بچوں کو اردو کی تعلیم دلائی اور اس کا انتظام کیا بلکہ دوسرے بچوں کو بھی اردو پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ زبانیں کسی خاص قوم یا مذہب کی نہیں ہوتی بلکہ زبانیں اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہوا کرتی ہے اور اردو اس معاملہ میں سب سے منفرد ہے۔ اردو جاننے والا کافی سلیقہ سے اپنی باتوں کو رکھ پاتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ زبان ہماری وراثت کا ایک ایسا حصہ ہے جس کو گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہونے کا سرف حاصل ہے۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ بلاشبہ میں یہ کہ سکتا ہوں کہ میں نے اردو سیکھی، پڑھی اور اب اردو کو گھر گھر پہنچانے کا شوق میرے اندر پروان چڑھ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں مجھے ایک دن ضرور کامیابی حاصل ہوگی۔
چندر بھوشن کہتے ہیں کہ میں نہیں مانتا کی اردو کسی خاص مذہب کی زبان ہے۔ اردو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تمدن کی زبان ہے، اردو پریم چند، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، گلزار، کرشن چندر بیدی اور گوپی چند نارنگ کی زبان ہے۔ ہندوستان میں ہندو شاعروں، ادیبوں اور مصنفین نے اردو میں بے شمار کام کیے ہیں جو ہندوستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے
|
اردو زبان میں موجود ہے علم کا ذخیرہ
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ اردو زبان ایک میٹھی اور سلیس زبان ہے۔ علم کا ایک بڑا ذخیرہ اس زبان میں موجود ہے۔ اردو پڑھنے والے ہونگے تو اردو کی ان نادر کتابوں سے مستفید ہو سکیں گے لیکن اردو پڑھنے والا نہیں رہے گا تو وہ کتابیں اور علم کا وہ ذخیرہ برباد ہو جائے گا۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے یا یہ کہنا کہ اردو صرف مسلمان پڑھتے ہیں یا مسلمانوں کی زبان ہے یہ غلط ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اردو کو ہر ہندوستانی کو پڑھنا چاہئے۔ اردو پڑھنے سے بولنے کا سلیقہ آتا ہے، اردو ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس زبان کو پڑھنے سے گنگا جمنی تہذیب کا فروغ ہوتا ہے۔ پریم چند سے لیکر گوپی چند نارنگ تک کتنے ہندو شاعر و ادیب ہیں جنہوں نے اردو زبان کو پڑھا اور اس زبان میں انتہائی اہم کارنامہ انجام دیا۔ آج دنیا اردو کے سبب انہیں جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اس ملک کے ہر شخص کو اردو پڑھنا چاہئے اور اسکولوں میں اردو کی پڑھائی کا مناسب انتظام ہونا چاہئے۔
اردو کو مذہب سے جوڑنا غلط
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ ایک عجب اتفاق ہے یا بنائی گئی احکمت عملی کے سبب کہ اردو زبان کو لوگ دھرم و مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ زبانیں کسی مذہب کا حصہ نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی انگریزی سیکھ رہا ہو یا کوئی ہندی سیکھ رہا ہو یا کسی اور ملک میں کوئی اور زبان سیکھی اور پڑھائی جا رہی ہو تو کیا وہ بھی کسی مذہب کا حصہ ہے؟ یقیناً نہیں ہے، پھر اردو کو کسی خاص رنگ میں رنگنے کی کوشش یا کسی خاص چشمہ سے دیکھنے کی روایت غلط ہے۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اردو ایک زبان ہے، ایک زندہ زبان، ہندوستانی کلچر کی زبان اسے مذہب سے جوڑ کر مت دیکھیے۔ چندر بھوشن کے مطابق کوئی بھی زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی اور اردو تو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ یہ زبان تو سب کی ہے، اب جو لوگ دھرم سے اردو کو جوڑتے ہیں دراصل ان کا کوئ کام نہیں ہے، ایسے لوگ منافرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چندر بھوشن کے مطابق ایسے لوگوں کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہئے اور ہر شخص کو اردو جیسی خوبصورت زبان کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ چندر بھوشن نے کہا کہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سبھی اسکولوں میں اردو کے ٹیچر کو بحال کرنا چاہیے اس کے ساتھ ہی تمام دفاتر میں اردو کا ٹرانسلیٹر رہنا چاہئے اور لوگوں کو اپنی درخواستیں اردو میں دینی چاہئے۔
چندر بھوشن
موجودہ وقت میں اردو کا مستقبل
چندر بھوشن نے کہا کہ میں ایک اردو کا طالب علم ہوں اور یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اردو کا مستقبل کافی تابناک ہے۔ جو لوگ نہیں جانتے ہیں وہ نہیں جانتے ہیں لیکن میں نے جب سے پڑھنا شروع کیا اور پی جی کیا اب تو پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ اس زبان کا مستقبل کافی روشن ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں اردو کی سخت ضرورت پیش آتی ہے۔ درس و تدریس میں اردو کا جاب ہے، ٹرانسلیٹر میں ہے اور بھارت سرکار اور صوبائی سرکار کے کئی محکموں میں اردو کا جاب آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو سب سے اہم ہے وہ یہ کی ہندوستان کے لیے یہ زبان کافی اہم ہے۔ مشترکہ تہذیب کو اس زبان نے فروغ دیا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو مصنفین کی بڑی تعداد ہے جن کی تصانیف اردو زبان میں ہے۔ اگر لوگ پڑھیں گے نہیں تو ان کتابوں کے بارے میں اور ان ذخیرہ کے بارے میں کیسے جان سکیں گے۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ بغیر کسی مذہبی اختلافات کے زبان کو زبان سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔
اردو کو لیکر مستقبل کا میرا لائحہ عمل
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میں مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا سے اردو میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ اب مستقبل کو لیکر میرا صاف لائحہ عمل یہ ہے کہ میں ایک کامیاب ٹیچر بننا چاہتا ہوں۔ میرا شوق ہے کہ میں درس و تدریس کا حصہ بنوں اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو اردو زبان سو جوڑ سکوں۔ چندر بھوشن کے مطابق آج بھی میں یہ کام کر رہا ہوں اور اپنے گاؤں میں کافی ہندو بچوں کو اردو پڑھنے کی میں نے ترغیب دی ہے اور وہ اردو پڑھ بھی رہے ہیں۔ ہاں اس میں وقت لگے گا لیکن میں جس دن پوری طرح سے کامیاب ہو گیا تو اردو کو پڑھانے کی ایک مہم چلاؤں گا۔ چندر بھوشن کا ماننا ہے کہ ہر انسان کو اردو پڑھنا چاہئے۔ جس طرح سے جینے کے لیے کھانا ضروری ہے اسی طرح سے ہماری زبان کو جاننا ضروری ہے۔
زبانیں کسی خاص قوم یا مذہب کی نہیں ہوتی بلکہ زبانیں اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہوا کرتی ہے اور اردو اس معاملہ میں سب سے منفرد ہے۔ اردو جاننے والا کافی سلیقہ سے اپنی باتوں کو رکھ پاتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ زبان ہماری وراثت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ |
ہندو اور مسلم دوستوں نے کیا کہا
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو معلوم چلتا ہے کہ میں نے اردو سے ایم اے کیا ہے اور اب پی ایچ ڈی کر رہا ہوں تو وہ حیرت کرتے ہیں۔ میں ان کو حیرت زدہ دیکھ کر خود حیرت کرنے لگتا ہوں۔ میرے دوست و احباب نے میری تعریف کی تو میری مخالفت بھی کی۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ اردو سے کیوں پڑھ رہے ہو؟ اور کچھ نے اپنی خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا بہت اچھا کر رہے ہو۔ جن دوستوں نے یہ سوال کیا کہ اردو سے کیوں پڑھ رہے ہو؟ میں نے ان کو بتایا کہ اس زبان کو پڑھنا کیوں ضروری ہے۔ چندر بھوشن کے مطابق جیسے ہندی یا کسی دوسری زبانوں کو پڑھنا ضروری ہے اسی طرح اردو کو پڑھنا ضروری ہے۔ ہندی اور انگریزی پر لوگ زیادہ توجہ دیتے ہیں تو اردو پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ غیر مسلم ہیں اور اردو پڑھ رہے ہیں تو میں نے لوگوں کو بتایا کہ نہیں مذہب کا کوئی معاملہ نہیں ہے اردو تو سب کی زبان ہے اور سب کو پڑھنا چاہئے۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میں نے کافی لوگوں کو اردو کے تئیں بیدار کیا ہے اور بچہ اردو پڑھ بھی رہے ہیں۔ چندر بھوشن نے بتایا کہ میری کوشش یہ ہے کہ اردو سے مختلف مذاہب کے لوگوں کو جوڑے تاکہ ہماری مشترکہ کلچر اور گنگا جمنی تہذیب فروغ پا سکے۔
اردو پڑھنے کا فائدہ
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ غیر مسلم طلبا یا مسلم طلبا میں ایک بات رائج ہو چکی ہے کہ اردو پڑھنے کا فائدہ کیا ہے؟ وہ اردو کو نوکری سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ لوگ یہ تلاش کرتے ہیں کہ اردو پڑھ کر نوکری حاصل ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یقیناً یہ بات بھی صحیح ہے کہ جس زبان کو نوکری سے جوڑ دیا جاتا ہے وہ زبانیں پروان چڑھتی ہے اور وہاں مذہب کی بات نہیں ہوتی بلکہ سبھی لوگ اس کو سیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ پڑھ لیں گے تو نوکری مل جائے گی لیکن آج لوگ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس زبان کو سیکھ کر ہم ایک ایسے کلچر سے ہمکنار ہونگے جو کلچر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کہلاتی ہے اور اس کلچر نے ہندوستان کو بہت کچھ دیا ہے، بلاشبہ اس میں اردو کا رول سب سے اہم ہے۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں جاب ملے گا یا نہیں۔ اردو پڑھنے والا طالب علم بھی 12ویں کے بعد سے اردو کو چھوڑ دیتا ہے۔ والدین بھی اس تعلق سے بیدار نہیں ہیں۔ اسکولوں میں اردو کے اساتذہ بھی کم ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ کوئی بھی طالب علم کسی بھی مضامین کو لیکر اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہو لیکن اسے اردو کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اردو کو ضرور سیکھنا چاہئے۔
اردو سے چندر بھوشن کی محبت ایک مثال
اردو اور ملازمت
چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ میں اردو سے پی ایچ ڈی کر رہا ہوں تو میں یہ یقین سے دیکھ رہا ہوں کہ اردو میں کیریئر کے مواقع موجود ہے۔ چندر بھوشن نے کہا کہ میں تو جہان آباد جیسے ایک چھوٹے شہر میں رہتا ہے لیکن بھارت سرکار اور بہار سرکار میں اردو کا کافی جاب ہے۔ ٹرانسلیٹر کا جاب ہے اساتذہ کا جاب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اس زبان سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں تو مجھے بھی ملازمت مل جائے گی۔
اردو ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس زبان کو پڑھنے سے گنگا جمنی تہذیب کا فروغ ہوتا ہے۔ پریم چند سے لیکر گوپی چند نارنگ تک کتنے ہندو شاعر و ادیب ہیں جنہوں نے اردو زبان کو پڑھا اور اس زبان میں انتہائی اہم کارنامہ انجام دیا۔ آج دنیا اردو کے سبب انہیں جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لیے اس ملک کے ہر شخص کو اردو پڑھنا چاہئے اور اسکولوں میں اردو کی پڑھائی کا مناسب انتظام ہونا چاہئے۔
|
چندر بھوشن کے مطابق سب کو اردو زبان پڑھنی چاہئے اور اس زبان سے جڑے مدّعہ کو سرخیوں میں لانا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو کے ساتھ کئی جگہوں پر ناانصافی ہوتی ہے اس سے انکار نہیں ہے، ایسے میں ان تمام مسئلہ کو منظر عام پر لانا ایک اردو کے طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ چندر بھوشن کے مطابق سبھی جگہوں پر نام پلیٹ ہندی میں لگ جاتا ہے لیکن دوسری سرکاری زبان ہونے باوجود اردو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے، اس پر مجھے افسوس ہوتا ہے۔ چندر بھوشن کا کہنا ہے کہ سبھی محکموں، دفاتر، ضلع اور بلاک ہر جگہ اردو میں نام پلیٹ ہونا چاہئے ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنی درخواستیں اردو میں دینی چاہئے۔ چندر بھوشن نے کہا کہ اس سے زبان کی ترویج و ترقی کا ایک ماحول بنتا ہے اور بچے و نوجوان اردو کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کرنا چاہئے اور ہر شخص کو اردو جیسی زبان جو ہندوستان کی مشترکہ کلچر و تہذیب کی زبان ہے ضرور سیکھنی چاہئے۔