محمد تنویر : کولکتہ
انسانیت سے آگے کچھ نہیں ۔ مذہب کوئی دیوار نہیں ، یہی ثابت کیا روزے دار نسیم نے۔ جس نے ایک مریضہ سنگیتا کی جان بچانے کے لیے روزہ توڑااور خون کا عطیہ دیا ۔ ملک میں جب فرقہ وارانہ منافرت کا بازار گرم ہے ۔۔اس وقت مغربی بنگال سے یہ خبر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند آئی ہے ۔ ایک مثال بن کر ،ایک پیغام بن کر ۔۔۔
خبر مغربی بنگال میں مرشدآباد کے پلاشی کی ہے ۔ جہاں 27 سالہ انجینئرنگ طالب علم نسیم ملیتا نے رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے روزے کو توڑ کر ایک ہندو خاتون کی جان بچائی،ساتھ ہی ایک ایسے معاشرے میں جہاں مذہب کی بنیاد پر تقسیم عام ہے، اتحاد اور بھائی چارے کا ایک مضبوط پیغام دیا۔ بات کلیانی کے جواہر لال نہرو اسپتال کی ہے ،جہاں ندیا کے مجدیاعلاقے کی رہنے والی سنگیتا گھوش جو گردے کے شدید مرض میں مبتلا ہیں ، انہیں فوری طور پر خون کی ضرورت تھی۔ ان کے بیٹے سنجو گھوش نے خون کے عطیہ دینے والوں کی تلاش میں ایک رضاکار تنظیم ایمرجنسی بلڈ سروس سے رابطہ کیا ۔اس تنظیم میں نسیم کا ممبر ہے۔ یہ پیغام نسیم تک پہنچا، پریشانی سنتے ہی وہ راضی ہوگیا۔ نسیم پہلے بھی باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے رہے ہیں۔
خون کا عطیہ دیتے ہوئے نسیم
آواز دی وائس نے جب نسیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جب انہیں اس کی خبر ملی تو میں روزے میں تھا ۔لیکن اس نے ایک لمحے کے لئے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔بلکہ وہ فوراً اسپتال پہنچا،روزہ توڑا اور خون عطیہ کیا۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق عطیہ کے بعد نسیم نے انرجی ڈرنکس لی ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے بھی کئی بار خون عطیہ کر چکا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ کسی کی جان بچانا سب سے بڑی خدمت ہے۔ خون دینے میں کوئی نقصان نہیں بلکہ یہ دوسروں کے لئے زندگی کی امید بنتا ہے۔ یہ میرے لیے کوئی نئی یا بڑی بات نہیں ،بس ایک انسانی خدمت کا جذبہ ہے جو بچپن سے میرا شوق رہا ہے ۔میں ہر کسی سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ مصیبت کے وقت ایسی حدوں کو توڑ کر آگے آئیں اور انسانی جان بچانے کا کام انجام دیں کیونکہ خدا نے ایک انسانی جان کو بچانے کو سب سے بڑی خدمت قرار دیا ہے
نسیم کا یہ عمل یاد دلاتا ہے کہ تمام مذاہب کی اصل روح ہمدردی اور محبت ہے۔ ان کی بے لوثی نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا جن میں سنگیتا کے بھائی سنجو گھوش بھی شامل ہیں، جنہوں نے نسیم کے لیے دلی تشکر کا اظہار کیا۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح روزے کے باوجود یہ خدمت کی ، وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جان بچانا ہی سب سے بڑا مذہب ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ میری والدہ پچھلے 8برسوں سے بیمار ہیں ، گردے کا مسئلہ ہے۔ ہمیشہ خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ۔16مارچ کووالدہ شدید بیمار پڑ گئی، ڈاکٹر نے خون چڑھانے کا مشورہ دیا۔ بلڈ بینک سے رابطہ کرنے پر وہاں دستیاب نہیں تھا۔ پھر ایک سماجی تنظیم کی مدد سے نسیم کا نمبر ملا۔انہوں نے فوری طور پر حامی بھرتے ہوئے اسپتال پہنچنے کا یقین دلایا ۔
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر نسیم کی ہر طرف سے ستائس کی جارہی ہے۔ کانگریس کی ترجمان سپریا سرناتےلکھتی ہیں کہ اس نفرت کے ماحول میں نسیم نے محبت کا پیغام دیا ہے۔ یہی میرا بھارت ہے۔ اسطرح دوسرے لوگوں نے بھی نسیم کی بھر ہور ستائش کی۔نسیم خود اپنے فیس بک پیج پر لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کئی لوگوں کی نیک خواہشیات کو اپنے پیج پر شیئر کیا ہے۔نسیم مرشد آباد کے رہنے والے ہیں لیکن اپنی تعلیم کے سلسلے میں کلیانی میں مقیم ہے۔