پرویز خان - جسے انڈین نیوی کی ہری جھنڈی نے فلائنگ خان بنا دیا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-06-2024
  پرویز خان -  جسے انڈین نیوی کی ہری جھنڈی نے فلائنگ خان  بنا دیا
پرویز خان - جسے انڈین نیوی کی ہری جھنڈی نے فلائنگ خان بنا دیا

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

لیجئے ! ایک اورخان کا ظہورہوگیا، یہ ہیں ۔ پرویز خان۔ مگر فلمی یا کرکٹ کی دنیا کے نہیں بلکہ ٹریک اینڈ فیلڈ کے ہیں ہیرو۔ ایک برق رفتاراتھیلٹ۔ جس نے میوات کی سرزمین سے اپنا سفر شروع کیا اوراب امریکہ کی سرزمین پرہلچل پیدا کردی، میوات کی ایک کسان کا بیٹا، انڈین نیوی کا ایک جوان اور امریکی یونیورسٹی کا ایک طالب علم جو اب ہندوستانی ایتھلیٹکس کے لیے مستقبل کا روشن ستارہ بن گیا ہے،اس کی کامیابی میں جہاں اس کی ذاتی یا انفرادی جدوجہد اور محنت کا ہاتھ ہے، وہیں اس نوجوان کو میوات ایکسپریس بنانے میں انڈین نیوی کی ہری جھنڈی کی بھی بہت اہم کہانی ہے۔ورنہ ڈیفینس کی ملازمت کے دوران کسی کے لیے بیرون ملک تعلیم اور تربیت کے بارے میں سوچنا بھی مشکل  ہوتا ہے لیکن یہ پرویز خان کی محنت اور جنون تھا جس نے میوات سے فلوریڈا تک کا سفر آسان کیا ۔جبکہ کالج سطح پر ان کی پرفارمینس نے ہندوستان کے لیے اولمپکس  میں امیوں کا چراغ بنا دیا ہے 

دراصل پرویز خان نے  لوزیانا میں ایس ای سی کالجیٹ ایتھلیٹکس آؤٹ ڈور ٹریک اینڈ فیلڈ چیمپئن شپ 2024 میں1500 میٹر میں پہلا اور 800 میٹر میں تیسرا مقام حاصل کیا ۔ تو سوشل میڈیا پر اس کی دوڑ کی ویڈیو گرم جلیبی کی مانند مقبول ہوگئی اور ایک ایسا اتھیلٹ  سرخیوں میں آیا جو قومی سطح پر ابتک ایسی شہرت حاصل نہیں کرسکا تھا۔ یاد رہے کہ پرویز خان نے اس سال مارچ میں این سی اے اے چیمپئن شپ (انڈور) میں ڈیبیو کیا تھا اور وہ پہلے ہندوستانی بن گئے تھے جنہوں نے سب سے زیادہ  کالجیٹ  ٹریک ایونٹ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ ا نہوں نے ایک میل کی ابتدائی دوڑ میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور بوسٹن میں این سی اے اے انڈور ٹریک اور فیلڈ چیمپئن شپ کے فائنل میں جگہ بنائی۔ دراصل پچھلے ہفتے امریکہ سےسوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پرویز خان کو 1500 میٹر کی دوڑ میں تیزی سے دوسرے حریفوں کو پچھاڑتے ہوئے دیکھا گیا۔لیکن دلچسپ نظارہ یہ تھا کہ فینیشنگ لائن سے سو میٹر قبل ہی میواتی نوجوان نے جشن منانا شروع کردیا تھا جو کہیں نہ کہیں اس کے اعتماد کو بیان کررہا تھا۔پرویز خان این سی اے اے ٹریک اینڈ فیلڈ چیمپئن شپ میں فلوریڈا یونیورسٹی کے فلوریڈا گیٹرز کی نمائندگی کرتا ہے

awazurdu

پرویز خان مستقبل کی سب سے بڑی امید


ایک کسان کے بیٹے ہیں  پرویز خان،جن کا تعلق ہریانہ کے میوات ضلع سے ہے۔  پرویز کی پیدائش میوات کے  چہلکا گاؤں میں ہوئی تھی، جو دہلی کے جنوب سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ہے۔ ان کے والد نفیس خان اپنے پاس موجود پانچ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ پرویز خان کو بچپن سے ہی دوڑ کا شوق تھا اور وہ اتنا باصلاحیت تھا کہ وہ اکثر اپنے سے بڑے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیتے تھے۔ انہوں نے صرف13 سال کی چھوٹی سی عمر میں اپنا گاؤں چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنی آنکھوں میں ایک پیشہ ور رنر بننے کے خواب کے ساتھ  دہلی آگیا تھا۔جواہر لعل نہرو اسٹیڈیم میں تربیت کے ایک سال بعد پرویز خان نے بھوپال منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (سائی) میں تربیت شروع کی، جہاں کوچ انوپما سریواستو کا ساتھ ملا۔

 کیرئیر کا آغاز 

 پرویز خان کے کیریئر کی پہلی پیش رفت اس وقت ہوئی جب اس نے 2019 میں منگل گیری میں انڈر 16 نیشنلز میں 800 میٹر کی دوڑ میں گولڈ میڈل جیتا، اس کے بعد 2020 میں انڈر 18 کھیلو انڈیا گیمز میں برونزتمغہ حاصل کیا۔ اس کے بعد نیشنل اوپن میں گولڈ  میڈل اور 2022 میں چنئی میں نیشنل سینئر ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں سلور میڈل جیتا تھا۔ تاہم نیشنل گیمز گولڈ میڈل  ان کے پروفیشنل کیریئر کا ایک اہم موڑ تھا جس میں انہوں نے 2022 میں گاندھی نگر، گجرات میں 3.40.89 کا وقت لیا تھا۔

 نیوی کی جھنڈی اور امریکہ کی اڑان 

ہندوستانی میدانوں پر کامیابی کے بعد جب پرویز خان نے ’لمبی دوڑ  کا گھوڑا‘ بننے کے لیے  امریکہ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے ویزا اور اسکالر شپ بھی حاصل ہوگئی لیکن ان کے سامنے  مسئلہ یہ تھا کہ وہ انڈین نیوی کا حصہ تھا۔ یعنی کہ خصوصی اجازت حاصل کرنے کا مرحلہ آسان نہیں تھا۔اسکالرشپ آفرلیٹر ہاتھ میں لے کر پرویزخان نے نیوی میں اپنے اعلیٰ افسران سے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کی اجازت کے لیے رابطہ کیا ۔ڈیفینس کی ملازمت میں بیرون ملک تعلیم یا تربیت حاصل کرنے کی اجازت بہت مشکل ہوتی ہے۔ پرویز خان نے اپنے یونٹ کے کپتان سے بات کی۔انہیں بتایا کہ یہ موقع بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ میں ایک کھلاڑی کے طور پر بہتری لانے کی پوری کوشش کروں گا۔ انہوں نے مجھ پر بھروسہ کیا اور مجھے یہ موقع ملا۔ اس طرح  پرویز خان  نے ٹریک اینڈ فیلڈ میں برق رفتاری کو چار چاند لگانے کے لیے اسکالر شپ پر فلوریڈا یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔  

ایک خواب تھا 
پرویز خان نے ایک حالیہ انٹر ویو میں کہا کہ میں میوات کے ایک گاؤں کا لڑکا ہوں۔ میں نے سوچا نہیں تھا کہ ایک دن میں امریکہ میں تعلیم کے ساتھ تربیت حاصل کروں گا اور اولمپک تمغہ جیتنے والوں کے ساتھ دوڑوں گا۔ان کے مطابق کھیتی میں بہت کم پیسہ ہے۔ میں نے اپنے کھیت میں کام آ کے ساتھ  فاضل آمدنی کے لیے دوسرے کھیتوں پر بھی کام کیا۔ یہی نہیں ان دنوں میرا بڑا بھائی گڑگاؤں میں ٹیکسی چلاتا ہے - دراصل  اہل خاندان  محسوس کرتے تھے کہ کھیلوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ میرے گاؤں میں کوئی کھلاڑی نہیں ہے۔ لیکن میں ہمیشہ کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ گاوں میں روزگار کا ایک متبادل فوج تھی۔ اس لیے میرے گاؤں کے بہت سے لوگ فوج میں بھرتی کی جسمانی تیاری کے لیے دوڑتے ہیں۔ میں بھی ان میں  شامل ہو گیا،مجھے آہستہ آہستہ لطف آنے لگا۔ میرے پاس کوئی کوچ نہیں تھا میں نے صرف  بڑے لڑکے  کو دیکھ کر  سیکھنا شروع کیا تھا -
پرویز خان کو کچھ مقامی ریس جیت کر اس بات سے احساس ہوگیا تھا کہ بہتر مستقبل کے لیے اسے اپنا گاؤں چھوڑنا پڑے گا اور 13 سال کی عمر میں دہلی کا سفر کیا۔

 یقیناً یہ ایک فلمی کہانی کی طرح ہے،  پرویز خان کے مطابق  لوگوں نے بتایا تھا کہ دہلی میں ایک بڑا اسٹیڈیم ہے جہاں میں مصنوعی ٹریک پر اور  کوچ بھی ہیں  جن کی نگرانی میں  ٹریننگ کر سکتا ہوں۔ جس کے بعد  پرویز خان نے اپنے والدین سے اجازت لی اور  میوات سے بس پکڑی اور دہلی آگیے ۔ جہاں  ایک چچا تھے جو دہلی میں ٹیکسی چلاتے تھے ،  ان کے ساتھ رہتے ہوئے جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میں ٹریننگ شروع کی۔دہلی میں ایک سال کے بعد پرویز خان اپنے چند دوستوں کے ساتھ، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا  میں تربیت کے لیے بھوپال شفٹ ہو گئے۔ وہیں، کوچ انوپما سریواستو کے زیر تربیت، خان کا کیریئر شروع ہوا۔

اب بات پرویز خان کے کیریئر کی

اس نے 2019 میں منگلاگیری میں انڈر 16 نیشنلز میں 800 میٹر میں طلائی تمغہ جیتا تھا، اگلے سال انڈر 18 کھیلو انڈیا گیمز میں اسی فاصلے پر کانسی کا تمغہ جیتا تھا - ورنگل میں اوپن نیشنل چیمپئن شپ میں اپنی پہلی سینئر ریس - 1500 میٹر جیتنے سے پہلے۔ 2021 میں پرویز خان ورنگل گولڈ کو اپنے کیریئر کا سب سے اہم قرار دیتے ہیں جب سے وہ میڈل کی بنیاد پر ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوئے تھے۔میرے خاندان کے پاس بہت کچھ نہیں ہے اور میں اپنی تنخواہ سے کم از کم اپنے خاندان کے لیے گئے بہت سے قرضوں کو ادا کرنے کے قابل تھا ان کا گھریلو کیریئر واقعی 2022 میں عروج پر تھا ،یشنل گیمز میں گاندھی نگر میں 3.40.89 کی ذاتی بہترین کارکردگی کے ساتھ 1500 میٹر میں گولڈ میڈل تمغہ تھا۔اس گولڈ میڈل کی پشت پر پرویزخان کو پہلی بار ہندوستانی قومی کیمپ میں شامل کیا گیا تھا۔ 2023 کے اوائل میں، وہ ہندوستانی تربیتی دستے کا حصہ تھا جس نے کولوراڈو میں یو ایس اے کے اولمپک ٹریننگ سینٹر کا سفر کیا۔ تربیت کے دوران ہیئر لائن فریکچر کا سامنا کرنا پڑا جس نے بستر پر آرام کرنے پر مجبور کیا، مگر اس مایوسی سے بھی امید کی ایک کرن نکل آئی جس نے کالج کے کیریئر کا راستہ بھی کھول دیا۔

awazurdu

awazurdu

قسمت کی مہربانی

پرویز خان کا کہنا ہے کہ میری چوٹ کے بعد میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا ، مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ امریکہ میں اسٹوڈنٹس کو وہ سہولیات میسر ہیں جو اولمپکس کے معیار کی ہوتی ہیں ،میں جانتا تھا کہ اگر مجھے رنر کے طور پر ترقی کرنی ہے تو مجھے امریکہ میں تربیت حاصل کرنی ہوگی۔ اس دوران مراکش سے تعلق رکھنے والا میراایک انسٹاگرام دوست کالج کی ٹیم کا حصہ تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ میں یہاں کے کالجوں میں سے ایک میں بھی اپلائی کروں ، یہاں تک کہ مجھے ان کوچز میں سے ایک تک پہنچا دیا جو کہ بین الاقوامی رنرز کی تلاش میں تھے۔وہ کوچ ول پامر تھے

ماحول اور زبان 

پرویز خان نے اعتراف کیا کہ جب وہ گینس وِل میں واقع یونیورسٹی آف فلوریڈا کے کیمپس میں پہنچے تو ایک مختلف ماحول پایا، پرویز  خان نے اپنی پوری زندگی میں صرف ہندی میں بات کی تھی، اس لیے  پہلے بات چیت کرنا بہت مشکل تھا۔ انہیں  اسپورٹس مینجمنٹ کے ایک کورس میں بھی داخلہ دیا گیا۔

پرویز خان نے کہا کہ ہماری پہلی تربیت صبح 6 بجے ہوتی پھر ناشتہ۔ صبح 9.30 بجے ہماری پہلی کلاس ہوتی ہے۔ میں 2 بجے کے قریب وزن کی تربیت کا سیشن کرتا۔ پھر شام 6 بجے میرے پاس ٹیوشن کلاسز تھے،  میری پڑھائی صرف 8.30 بجے کے قریب ختم ہوتی ۔ واقعی دن بہت مصروف  ہوتے تھے،-میں سوچتا تھا کہ میں صبح 5 بجے اٹھ رہا ہوں اور میرا دن ختم نہیں ہوا! میں سوچتا تھا کہ یار میں کہاں آ گیا ہوں!'

 مجھے ہندوستانی اسٹوڈنٹس کا ایک گروپ بھی ملا ہے جو امریکہ میں پڑھ رہے تھے۔ کبھی کبھی ہم ہندوستانی ریستوراں میں جاتے ،میرے لیے اب بات چیت کرنا بھی بہت آسان ہوا۔ کبھی کبھی جب میں ہندوستان سے کسی سے بات کرتا،تو میں غلطی سے 'کیسا ہے' کے بجائے کہتا تھا 'کیسے ہو؟

ہارنے سے نفرت

پرویز خان کی زندگی کو بدلنے میں ایک اہم کردار ان کے کوچ کا ہے کوچ ول پامر کا کہنا ہے کہ میں نے پہلی بار پرویز کے ساتھ بات کی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک خاص رنر ہوسکتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ وہ صرف اپنی عمر اور اس کے گھڑی کے وقت کی بنیاد پر باصلاحیت تھا۔اگرچہ ایک رنر کے طور پر ان کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں تھا مگر پرویز خان پریشان تھا کہ کیاوہ داخلے کے لیے درکار تعلیمی معیار پر پورا اتر پاے گا۔ پرویز خان کے مطابق میں کوئی برا طالب علم نہیں تھا لیکن جب میں دوڑ میں شامل ہوا تو میں نے صرف اوپن اسکول سے تعلیم مکمل کی۔ امریکہ میں داخلہ لینے کے لیے، مجھے بتایا گیا کہ مجھے ایس اے ٹی کے امتحانات دینے ہوں گے۔ اگرچہ میں بالکل بھی پراعتماد نہیں تھا، لیکن کوچ پامر نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں صرف اتنا ہی امتحان دوں جو میں کر سکتا ہوں۔ اس لیے جو میں کر سکتا تھا لیکن میں نے ہر سوال کی کوشش کی۔ پرویز خان نے اپنے امتحان میں صرف اعترافی طور پر معمولی اسکور حاصل کیا، لیکن جیسا کہ پامر نے اس سے وعدہ کیا تھا، وہ اپنی دوڑ کی صلاحیتوں کے لیے مطلوب تھے۔ کوچ پالمر ٹریننگ روم اور ٹریک میں خان کی کارکردگی سے متاثر رہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ پرویز کو ہارنے سے نفرت ہے۔ آپ اس کی تربیت نہیں کر سکتے۔ وہ صرف ایک بہت اچھا حریف ہے۔ دوڑ کے اختتام پر جب زیادہ تر لوگ تھکنے لگتے ہیں تو اسے ایک اضافی گیئر مل جاتا ہے۔ پرویز خان کہتے ہیں کہ ہندوستان میں آپ ہمیشہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ آپ کا کوچ کیا کرے گا یا کہے گا۔ یہاں آپ کو بہت زیادہ آزادی ہے۔ ہندوستان میں بھی آپ کو ہمیشہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کچھ کیوں نہیں کر سکتے۔ یہاں سوچ یہ ہے کہ بڑے خواب دیکھیں اور پھر سوچیں کہ آپ انہیں کیسے پورا کر سکتے ہیں۔

 پرویز خان کا مشن 

میوات کے ایک کسان کے بیٹے نے اپنی جدوجہد کو یقینا ایک مثال بنایا ،ایک طالب علم کی حیثیت سے امریکی ٹریک اینڈ فیلڈ پر اپنی برق رفتاری سے سب کو دنگ کرنے والے اس نوجوان کا اصل مشن اپنے ملک کے لیے لمبی دوڑ کا گھوڑا بننا ہے - پرویز خان کے کوچ ول پامر نے کہا کہ میرے خیال میں پرویز خان کو ایک لمبے عرصے تک ہندوستان کے لیے دوڑنا چاہیے-پرویزخان کا مقصد بھی یہی ہے- ان کا 2023 کا گھریلو سیزن پیر کے فریکچر کی وجہ سے متاثر ہوا تھالیکن اب وہ 1500 میٹر میں قومی سطح پر ئےکارنامے انجام دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔پرویز خان کہتے ہیں کہ یہ بہت اچھا ہے کہ میں انڈور مقابلے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہوں لیکن میرا اصل مقصد آؤٹ ڈور مقابلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اولمپکس کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوں۔ میں براہ راست کوالیفائی کرنے کی پوری کوشش کروں گا ۔ حقیقت یہی ہے کہ پرویز خان کا سفر ابھی شروع ہوا ہے ایک طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے امریکی ٹریک اینڈ فیلڈ پر امید کی جو کرن روشن کی ہے اس سے کہیں نہ کہیں ہندوستان میں ایک جوش پیدا ہوا ہے سب کا خواب ہے اولمپکس میں ٹریک اینڈ فیلڈ کے گولڈ میڈل کا-خود پر بھی اس خان کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں نے ابھی تک کچھ کیا ہے۔ ابھی تو سفر شروع ہوگا

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ان پٹ کے ساتھ