ثاقب حسین :کھیتوں سے ایڈن گارڈنز تک مثالی سفر

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-06-2024
ثاقب حسین :کھیتوں سے ایڈن گارڈنز تک مثالی سفر
ثاقب حسین :کھیتوں سے ایڈن گارڈنز تک مثالی سفر

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

 اگر آپ کے حوصلہ بلند ہیں، ارادے مضبوط ہیں اورمحنت کا جنون ہے تو آپ کو منزل یا مقصد سے کوئی دور نہیں کرسکتا ہے۔اس کی ایک مثال ہے ایک نوجوان ۔ بہار میں گوپال گنج کے ایک غریب کسان کے خاندان کا چشم و چراغ ۔ جس کے کرکٹ جنون نے اسے کھیتوں سے کولکتہ کے ایڈن گارڈنز تک پہنچا دیا ۔جہاں وہ  انڈین پریمئیر لیگ میں کولکتہ نائٹ رائڈرس کا حصہ بنا ۔ لیکن اس کی زندگی کی کہانی ایسی ہے کہ  اس سیزن میں بنا کوئی میچ کھیلے بھی سرخیوں میں ہے۔

 یہ کہانی ہے ثاقب حسین کی ۔ جس کے کرکٹ کے جنون نے کھیتوں میں پروان پایا لیکن کے کے آر کی کھوج یا دریافت مہم کے سبب توجہ کا مرکز ہے۔ جسے مارچ میں آئی پی ایل نیلامی میں کے کے آر نے بیس لاکھ روپئے میں خریدا تھا ۔ جو ایک ایسے نوجوان کے لیے پہلی بڑی رقم تھی جس کے اسپورٹس شو کے لیے اس کی ماں نے اپنے زیور بیچ دئیے تھے ۔جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ خود رو پڑی تھیں ۔

دراصل کے کے آر نے اس سال تیسری مرتبہ آئی پی ایل جیتا ہے۔ فلمی دنیا کے بادشاہ کہلانے والے شاہ رخ حان کی کے کے آر میں جہاں مینٹر کی شکل میں گوتم گنبیر اور کپتان کی حیثیت سے ائیر نے سرخیاں بٹوریں لیکن ان کے ساتھ  جو نام اور چہرہ  کہانی بنا  وہ ثاقب  حسین ہے ۔ جس کی محنت اور جدوجہد کی کہانی کو کے کے آر کی آفیشل ویب سائٹ پر پیش کیا گیا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک ثاقب حسین کو پہلا میچ کھیلنے کا موقع نہیں ملا ہے کیونکہ کے کے آر اس کھوج کو فی الحال ہیرے کی مانند چمکانے میں مصروف ہے

آپ کو بتا دیں کہ ثاقب حسین 14 دسمبر 2004 کو بہار میں پیدا ہوئے، ثاقب نے بہت چھوٹی عمر میں ہی کرکٹ کے سفر کا آغاز کیا۔ اس کی تیز رفتار اور جارحانہ ذہنیت نے گھریلو سرکٹ میں ہر کسی کو متاثر کیا۔ یاد رہے کہ 19 سالہ نوجوان ثاقب حسین دائیں ہاتھ کے فاسٹ بالر ہیں 

ایڈنز گارنز میں پریکٹس کے دوران ثاقب حسین 


کیا ہے ثاقب حسین کی کہانی 

 گوپال گنج کے نوجوان ثاقب حسین کی زندگی بے حد غریبی میں گزری تھی،محدود وسائل کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اور ان حالات میں ہی کھیل کو جاری رکھا ۔ ثاقب حسین نے کے کے آر کی پروفائل اسٹوری میں بتایا کہ ۔۔۔۔۔ ہم کسان ہیں ،میرے پاپا کھیتی کرتے تھے ،جس سے کچھ آمدنی ہوتی تھی،  لیکن پھر ان کے گھٹنے میں تکلیف ہوگئی جس کے سبب میں نے کہا کہ کھیتی نہ کریں ۔ مگر وہ حالات بہت سخت تھے۔کیونکہ مجھے ٹینس بال سے میچ کھیلنے پر پانچ یا سات سو روپئے مل جاتے تھے لیکن  کھیلنے کے لیے جوتا خریدنا بھی مشکل تھا ،جوتے کی قیمت دس سے پندرہ ہزار تھی اگر جوتا خریدتا تو کھانا کہاں سے کھاتا؟

ثاقب حسین کے والد اپنی جدو جہد کی کہانی سنا کر روپڑے


ثاقب حسین کے والد کہتے ہیں کہ میں تنہا کمانے والا تھا جب یہ مصیبت نازل ہوئی تو  ایک وقت کھانے کے لیے بھی سوچنا پڑتا تھا۔مگر مجھ سے لوگوں نے کہا کہ آپ کا لڑکا بہت تیز بالنگ کرتا ہے ،اس لیے میں نے ثاقب سے کہا کہ وہ کرکٹ پر دھیان دے۔

 اس بارے میں ثاقب حسین کی والدہ کا کہنا تھا کہ ایک دن ثاقب رونے لگا ۔۔۔ وہ بولا کہ میں اگر جوتا نہیں خرید سکوں گا تو کھیلوں گا کیسے ۔ میں نے زیور نکال کر دئیے کہ اس کو بیچ کر جوتا لے آو ۔اس قصہ کو بیان کرتے ہوئے وہ  جذباتی ہوگئی تھیں ۔

ثاقب حسین کی والدہ نے سنایا جوتے کے لیے زیور بییچنے کا واقعہ


بات کرکٹ میدان کی کریں 

ثاقب حسین نے کھیتوں میں پیدا ہوئے اس جنون کو اپنی محنت اور لگن سے میدان میں پہنچایا ۔ ثاقب کا کیریئر بھی ہندوستان کے ہر دوسرے یا تیسرے لڑکے کی طرح شروع ہوا جو گلی، محلے یا مقامی مقابلے میں ٹینس بال کھیلتا ہے۔ ثاقب پہلے بھی ٹینس بال سے کھیلتے تھے اور اس دوران ان کی صلاحیت کو مقامی کوچ ٹونا بھیا نے آزمایا جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ثاقب کو وہ لمحہ آج بھی یاد ہے اور یہاں تک پہنچنے میں ان کا تعاون کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس کے علاوہ رابن سنگھ نے بھی اس کی بہت مدد کی۔ثاقب نے کہا کہ رابن بھیا نے مجھے ٹینس بال اور چمڑے کی گیند میں فرق سکھایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ چمڑے کی گیند کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ سیون کیا ہوتی ہے، سوئنگ کیسے کی جاتی ہے۔ثاقب کے کیرئیر کو ٹونا بھائی کی کرکٹ اکیڈمی (ٹونہ گیری کرکٹ اکیڈمی) میں ایک نئی سمت ملی جو اب اس دنیا میں نہیں ۔ ثاقب کا کہنا تھا کہ ’مرحوم ٹونا بھیا میری بالنگ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے،انھوں نے مجھے اپنی اکیڈمی آنے کو کہا، پھر جب میں وہاں گیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کو ٹینس نہیں بلکہ چمڑے کی گیند سے کھیلنا چاہیے۔ جس سے میری بالنگ میں کافی بہتری آئی تھی۔ پھر مجھے پٹنہ میں ہونے والی بہار کرکٹ لیگ (بی سی ایل) میں کھیلنے کا موقع ملا اور وہاں میری کارکردگی سے متاثر ہو کر مجھے مشتاق علی ٹرافی میں بہار کی ٹیم میں بھی نمائندگی کا موقع ملا ۔

 اگر بات کریں نظروں میں آنے یا اپنی کارکردگی سے چونکانے کی کریں۔ تو یہ مشتاق علی ٹرافی تھی جس میں ثاقب حسین کی کارکردگی نے سب کو چونکا دیا تھا ۔ اس نے اپنا پہلا میچ آندھرا پردیش اور اوڈیشہ کے خلاف بھی دو دو وکٹیں لیں ۔ اس نے انڈر 19 ٹورنامنٹ میں اپنی پر فارمینس کے بعد 2020-21 کے سیزن میں کوچ بہار ٹرافی میں جگہ حاصل کی ۔ جس میں صرف چار میچوں میں 21 وکٹوں پر قبضہ کیا ۔ اس کے بعد بنگلور میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی کیمپ کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا۔ دراصل مشتاق علی ٹرافی کے لائیو ٹیلی کاسٹ کے دوران اس کی با لنگ کو دیکھکر کے کے آر، ممبئی، دہلی، آر سی بی اور چنئی نے دلچسپی لی ۔ اس کے بعد چنئی کے لیے نیٹ بالر کا انتخاب کیا گیا۔ مہندر سنگھ دھونی اور سورو گنگولی نے بھی اسے دیکھ کر با لنگ کی تعریف کی تھی۔

ثاقب حسین کی جدوجہد کی یادیں 


 ایک خواب ہے 

ایک حالیہ انٹرویو میں ثاقب حسین نےکہا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ ان لوگوں کے ساتھ کرکٹ کھیلوں گا،جنہیں وہ صرف ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ  "روہت شرما سر، ویراٹ کوہلی سر اور ایم ایس دھونی صاحب کو گیند کرنا کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ میرا خواب ویراٹ کوہلی سر کو گیند کرنا اور اپنی ٹیم کو جیتنے میں مدد کرنا ہے۔ اس وقت میں 145 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کر رہا ہوں۔ 150 کی رفتار سے بولنگ لیکن مجھے امید ہے کہ میں اسے 150 سے آگے لے جاؤں گا۔ثاقب اس سے قبل چنئی سپر کنگز اور دہلی کیپٹلس کے لیے بھی نیٹ بالر رہ چکے ہیں۔ چنئی کیمپ کی اپنی یادوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے  کہ وہ دھونی سے پہلی بار کیسے ملے اور پھر دھونی نے ان سے بھوجپوری اور ہندی میں بات کی۔

نیلامی کا قصہ

جی ہاں ! یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ کہ جب آئی پی ایل کی نیلامی کے پہلے راؤنڈ میں ثاقب حسین کا نام نہیں آیا تو مایوسی کے سبب اس نے نیلامی کا دوسرا دور نہیں دیکھا۔۔یہی نہیں ثاقب حسین نے اپنے کوچ رابن سنگھ کو فون کیا اور مزید محنت کرنے کا وعدہ کیا۔ دراصل اسے اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ کے کے آر نے اسے نیلامی میں پہلے ہی خرید لیا تھا۔ دراصل کے کے آر نے نیلام گھر کے ساتھ ہی اپنی ایک کھوج یا دریافت مہم چلا رکھی ہے جس کے تحت ایسے گمنام چہروں کو تلاش کیا جاتا ہے ،جن کو مستقبل کا ہیرو بنایا جاسکتا ہے ۔ اس کی ایک مثال علی گڑھ کے رینکو سنگھ بھی ہیں ۔۔۔۔ اس کے لیے کے کے آر کے اکسپرٹ اعداد و شمار کے بجائے کھلاڑی کے جوش اور جنون کی پرکھ کرتے ہیں۔ بہار کے کرکٹ شائقین کے لیے وہ دن بہت خاص تھا کیونکہ ایشان کشن اور مکیش کمار کے بعد بہار کے ایک اور لال نے آئی پی ایل میں قدم رکھا تھا ۔ اس دن شام کو جیسے ہی یہ خبر پھیلی تو جشن کا ماحول شروع ہو گیا۔ گاؤں میں ڈھول بجانے لگے۔ ثاقب حسین کے گھر کے باہر لوگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔

کامیابی کی مسکرائٹ 


سب کا ساتھ۔ سب کا پیار 

ثاقب حسین گوپال گنج کے ہیں اور ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے تیز گیند باز مکیش کمار بھی اسی شہر کے ہیں۔ ثاقب نے کہا کہ مجھے نہ صرف مکیش بھیا سے تحریک ملی ہے بلکہ وہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح پیار بھی کرتے ہیں ۔ہمیشہ مجھے بہتر بنانے کے لیے سمجھاتے رہتے ہیں، جب بھی مجھے کچھ پوچھنا ہوتا ہے، چاہے وہ بالنگ کا ہو یا فٹنس کے لیے، میں ان سے بات کرتا ہوں۔ وہ ہمیشہ میری مدد کرتا ہے۔ثاقب حسین بہار کرکٹ ایسوسی ایشن (بی سی اے ) اوراس کے صدر راکیش تیواری کے بہت شکر گزار ہیں،جنہوں نے ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے۔ ثاقب حسین کے پاس جو بیٹنگ کٹ ہے وہ بھی بی سی اے کی ہے۔وپہ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ بی سی اے کا شکر گزار رہوں گا، آج میں جہاں ہوں، راکیش تیواری جی کا بھی اس میں بڑا حصہ ہے۔ پہلی بار میں گوپال گنج میں ہی کسی ٹورنامنٹ میں کھیل رہا تھا، جہاں پہلی بار انہوں نے دیکھا۔ میں نے بالنگ کی اور پھر اس نے مجھے بتایا کہ وہ میری ہر طرح سے مدد کریں گے،جس میں مجھے بی سی اے سے اپنی زندگی کی پہلی بیٹنگ کٹ ملی۔

 گوپال گنج کے درگاہ محلے کے رہنے والے ثاقب حسین کے والد علی احمد حسین  کا کہنا ہے کہ  بیٹے کو اس کی محنت کا پھل ملا ہے۔ وہ بہت لائق بچہ ہے،وہ جانتا ہے کہ ہم نے کن مشکلات کا سامنا کیا ہے ۔کیسے زندگی جی ہے اور کس طرح جدوجہد کی ہے ۔ میری دعا ہے کہ اس کا کرکٹ سفر بہت لمبا ہو ۔ یہ ہے ایک اور محنتی نوجوان کی جدوجہد اور کامیابی کی کہانی ۔ جس کی محنت اور لگن کے سبب اس کی راہ میں نہ مذہب رکاوٹ بنا نہ اس کی غریبی ۔ بلکہ راہیں نکلتی گئیں اور وہ کھیتوں سے ایڈن گارڈنز تک پہنچ گیا ۔دنیا کی سب سے مہنگی کرکٹ لیگ کا حصہ بن گیا ۔۔